ایک آہو چشم کا جو کچھ سودا ہو گیا
ایک آہو چشم کا جو کچھ سودا ہو گیا
جب سے یہ زنجیر یا دامانِ صحرا ہو گیا
دیکھ شوخیِ چشم کے اور کج ادائے قد کے سن
کھل گئیں نرگس کی آنکھیں، سرو سیدھا ہو گیا
گر چہ چشمِ مست نے تیری کیا مجھ کو قتل
خندہ لب لیکن اعجازِ مسیحا ہو گیا
کیا کہوں وصف وہاں یک قطعۂ موہوم سے
ہم سے یہ عقدہ نہیں کھلتا، معما ہو گیا
دیکھ کر تیری ترقیِ حسن کے اے سیم بر
گھٹتے گھٹتے ماہِ کامل اب تو آدھا ہو گیا
نردباز میں ہے ہم جیتے نہ اس عیار سے
اس جگہ بہجت مخالف اپنا پانسا ہو گیا
- کتاب : تذکرہ آثار الشعرائے ہنود (Pg. 28)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.