کسی کے سنگ در سے اپنی میت لے کے اٹھیں گے
کسی کے سنگ در سے اپنی میت لے کے اٹھیں گے
یہی پتھر پئے تعویذ تربت لے کے اٹھیں گے
گئے وہ دن کہ ہم گرتے تھے اور ہمت اٹھاتی تھی
وہ دن آیا کہ اب ہم اپنی ہمت لے کے اٹھیں گے
اگر دل ہے تو تیرا درد الفت ساتھ جائے گا
کلیجا ہے تو تیرا داغ حسرت لے کے اٹھیں گے
یہ پیدا ہوتے ہی رونا صریحاً بدشگونی ہے
مصیبت میں رہیں گے اور مصیبت لے کے اٹھیں گے
خط قسمت مٹاتے ہو مگر اتنا سمجھ لینا
یہ حرف آرزو ہاتھوں کی رنگت لے کے اٹھیں گے
مجھے اپنی گلی میں دیکھ کر وہ ناز سے بولے
محبت سے دبے جاتے ہیں حسرت لے کے اٹھیں گے
ترے کوچے میں کیوں بیٹھے فقط اس واسطے بیٹھے
کہ جب اٹھیں گے اس دنیا سے جنت لے کے اٹھیں گے
ترا راز محبت لے کے آئے لے کے جائیں گے
امانت لے کے بیٹھے ہیں امانت لے کے اٹھیں گے
ہمیں اس نام جپنے کا مزا اس روز آئے گا
تمہارا نام جس دن زیر تربت لے کے اٹھیں گے
دم آخر ہم آنچل ان کا مضطرؔ کس طرح چھوڑیں
یہی تو ہے کفن جس کی بدولت لے کے اٹھیں گے
- کتاب : خرمن حصہ - ۲ (Pg. 85)
- Author : مضطر خیرآبادی
- مطبع : جاوید اختر (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.