بحمداللہ نالوں کی رسائی اب یہاں تک ہے
بحمداللہ نالوں کی رسائی اب یہاں تک ہے
زمیں کیا آسماں تک ہے مکاں کیا لامکاں تک ہے
بہار آئی تو پھر کیسا قفس کس کی گرفتاری
ہماری بے پرو بالی فقط فصل خزاں تک ہے
چھپا نظروں سے کب وہ خود نما جس کا ہر اک جلوہ
زمیں سے آسماں تک آسماں سے لامکاں تک ہے
نکال اس کو کہیں سے ڈھونڈھ اسے ساری خدائی میں
مجھے یہ دیکھتا ہے اے تمنا تو کہاں تک ہے
یہ نقشہ ہے تمہاری طالبِ دیدار کا دیکھو
نگاہیں کوک بھی ہیں شوقِ نظارہ یہاں تک ہے
غنیمت جان لیں سب پھر کہاں یہ دور آسایش
ترقی عیش و عشرت کی مرے ضبطِ فغاں تک ہے
وہ بلبل ہوں کہ میں آزاد ہوں فکرِ اسیری سے
یہاں خود دام کا عالم قفس سے آشیاں تک ہے
بقدر لذتِ دیدار صورت آشنا ہوگا
وہیں تک تجھ کو دیکھے گا نظر جس کی جہاں تک ہے
کہاں تک خط میں لکھوں حسرتِ دیدار کا مضمون
عبارت مختصر ہے یوں جہاں تک ہے وہاں تک ہے
ترا ہر نام پیارا ہے یہی کلمہ ہمارا ہے
مزا اس کا مٹے کیوں کر کہ یہ دل سے زباں تک ہے
سنوں کیا تیری اے ناصح جو سنتا ہوں تو مرتا ہوں
کہ میری زندگی کمبخت یادِ دلستاں تک ہے
غنیمت ہے نسیمؔ ہلسوی بزمِ سخن میں اب
مزدہ شیوہ بیانی کا اسی شیوا بیاں تک ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.