کھا کر فریب زیست جئے جارہا ہوں میں
کھا کر فریب زیست جئے جارہا ہوں میں
شربت سمجھ کر زہر پئے جا رہا ہوں میں
بیتی ہوئی بہار کی کرتا ہوں روک تھام
بوسیدہ پیرہن کو سئے جا رہا ہوں میں
کچھ حسرتیں ہیں اور کچھ ان کا مآل ہے
یہ تحفے اپنے ساتھ لئے جا رہا ہوں میں
مدت ہوئی کہ چھوٹ چکا ساتھ روح کا
اور اپنے عندیئے میں جئے جا رہا ہوں میں
خوش کن تصورات سے ہوہو کے مطمئن
کیا کیا فریب خود کو دیئے جا رہا ہوں میں
آیا تھا خالی ہاتھ مگر وائے بخت زشت
دنیا کا بوجھ سر پہ لئے جا رہا ہوں میں
اک دھن لگی ہوئی ہے کہ دامان وجیب کے
پرزے اڑا اڑا کے سئے جا رہا ہوں میں
شیشے میں مئے نہیں نہ سہی خون دل تو ہے
جو وقت پر ملا وہ پئے جا رہا ہوں میں
ہوں خود شناس اور خودی چھوڑ تا نہیں
کرتا نہ تھا جو کام کئے جا رہا ہوں میں
ہر داغ سوز عشق ہے اک بقعہ نور کا
مرقد میں لے کے لاکھوں دیئے جا رہا ہوں میں
نکہتؔ قفس میں سن کے رفیقوں کے زمزمے
خاموش اپنا خون پئے جا رہا ہوں میں
- کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلد گیارہویں (Pg. 291)
- Author : عرفان عباسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.