بے دلوں سے پوچھتے کیا ہو کہ دل کیا ہو گیا
بے دلوں سے پوچھتے کیا ہو کہ دل کیا ہو گیا
مرغِ دل تھا نام جس کا اب وہ عنقا ہو گیا
اب تو دل کا رازِ پنہاں آشکارا ہو گیا
اب تو دل کی گومگو باتوں کا چرچا ہو گیا
دل تڑپ کر گر پڑا گر کر دو پارہ ہو گیا
ایک دن آخر یہی انجام ہوتا ہو گیا
کیا بتاؤں میں جب اپنا دل پرایا ہو گیا
کس کے بس کا ہو گیا کس کے کہے کا ہو گیا
آج سودائی ترا عالم میں رسوا ہو گیا
شرم کیا کیا بات ہے دو دن کو چرچا ہو گیا
دل میں عشق آگے نہاں تھا اب تو چرچا ہو گیا
فتنہ ایسا بڑھ گیا اک حشر برپا ہو گیا
یہ ترقی الٹی ہے آنسو دُرِ یکدانہ تھا
موتی سے قطرہ ہوا قطرے سے دریا ہو گیا
شیشۂ دل چور ہونے پر بھی منہ سے اف نہ کی
ضبط کرتے کرتے پتھر کا کلیجا ہو گیا
سادہ دل تھامیں بس اک حرفِ تمنا دل میں تھا
وہ بھی مٹتے مٹتے صفحۂ دل کا سادہ ہو گیا
مرنے والے سختیوں کو لائیں گے خاطر میں کیا
ناگوارا کیا ہو جب مرنا گوارا ہو گیا
خون دل کا پی گئیں سارا کلیجا کھا گئیں
حسرتوں کو میرا سینہ خوانِ یغما ہو گیا
نکلیں خاموشی میں باتیں باتوں میں شاخیں ہزار
چپ ہی ایسی میں نے سادھی جس کا چرچا ہو گیا
آئے سب نادیدنی احوال سن کر دیکھنے
دیدنی نادیدنی کا بھی تماشا ہو گیا
موت ابھی آئی نہ تھی آئی تھی آنے کی خبر
میں تو شادی مگر سنتے ہی یہ مژدہ ہو گیا
موت تو یہ ہے کہ جینے کا بھروسا کچھ نہیں
کیا جیے گا جس کو جینے پر بھروسا ہو گیا
درد کا پردہ اٹھانے کو بہت ہیں طفل اشک
کیا چھپاؤں راز واقف بچہ بچہ ہو گیا
رہ نہ جاؤں دل پکڑ کر درد سے تو کیا کروں
دوست پوچھے جاتے ہیں کیا ہو گیا کیا ہو گیا
دل بلا سے ٹکڑے ٹکڑے ہو سلامت داغِ عشق
اب تو دل کا داغ میرے دل کا ٹکڑا ہو گیا
ایک دم میں سہل کٹ جاتی نہ کیوں راہِ عدم
سر جو کٹ کر تن سے اترا بوجھ ہلکا ہوگیا
دل کی پالی حسرتیں گھٹ گھٹ کے مر جاتیں نہ کیوں
حسرتیں جس دل میں رہتی تھیں وہ مردہ ہو گیا
آپ کے آتے ہی نکلے جس قدر ارمان تھے
چین سے رہیے کہ خالی دل کا گوشہ ہو گیا
نالے سے آہیں بنی تھیں آہیں گھٹ کر سسکیاں
سسکیاں آہیں بنیں آہوں سے نالہ ہو گیا
ایک میں ہوں اپنے جینے پر جسے حیرت رہی
ایک وہ جن کو مرا مرنا تماشا ہو گیا
دم وہی دم ہے کہیں الجھا کہیں اٹکا رہے
دل وہی دل ہے تعلق جس کو پیدا ہو گیا
دل سے گھر کو وحشتِ دل نے اجاڑا پھر کہا
اب رہیں گے ہم اسی گھر میں کہ صحرا ہو گیا
مدعا آنے نہ پائے آئے تو پورا نہ ہو
مدعا پورا دلِ بے مدعا کا ہو گیا
اک مرض تھا دل میں وحشت پاؤں میں چکر لقب
جب ترقی پا کے پہنچا سر میں سودا ہو گیا
غم نے کھایا ہم کو ہم کھانے سے آدھے رہ گیے
ہم نے کھایا غم کو غم کھانے سے دونا ہو گیا
جب گرا بسمل تڑپ کر ناز نے آواز دی
ایک سجدہ اور کر لو ایک سجدہ ہو گیا
دل میں تھی آگے تو حافظؔ تیرگی ہی تیرگی
ہے چمک بھی اب تو جب سے درد پیدا ہو گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.