چن کے میں پلکوں سے یوں خارِ بیاباں لے چلا
چن کے میں پلکوں سے یوں خارِ بیاباں لے چلا
جس نے دیکھا وہ یہ سمجھا اپنی مژگاں لے چلا
نزع میں پوچھیں وہ کیا تو داغِ ہجراں لے چلا
سر ہلا کر میں کہوں جی لے چلا ہاں لے چلا
کیسے پتھر پڑ گئے یا رب جنوں کی عقل پر
ستر پوشوں میں عدم سے مجھ کو عریاں لے چلا
چھوڑ کر فکرِ مآل و مال و امیدِ وصال
میں کلیجے سے لگائے داغِ حرماں لے چلا
ہاتھ میں زندوں کے مردہ چار کے کاندھے سوار
اور اس پر عمر بھر کا بارِ عصیاں لے چلا
کم ہے اس کی گور میں ہو جس قدر باغ و بہار
ایک سینے میں جو لاکھوں داغِ حرماں لے چلا
کس طرح کپڑے چھڑاؤں تجھ سے اے دستِ جنوں
جیب دامن تک تو دامن تا گریباں لے چلا
ضعف تھا یا شوق تھا اس راہ میں میرا رفیق
منزلوں تک جو مجھے افتاں و خیزاں لے چلا
ہو کسی کا نام منزل پر پہنچ جانے سے کام
پائے عریاں مجھ کو یا میں پائے عریاں لے چلا
دل کے ہاتھوں دیکھیے ہوں حشر میں کیا کیا عذاب
میں بغل میں پال کر اک دشمنِ جاں لے چلا
مجھ کو سر حدِّ عدم سے باہر آنا ہی نہت تھا
زندگی کیا لے چلا اک آفتِ جاں لے چلا
قافلے والو مبارک تم کو سامانِ سفر
میں تو بے سامانیوں کا ساز و ساماں لے چلا
اے خدا دستِ جنوں ہے یا گلے کا ہار ہے
ہو چکے تارِ گریباں تو رگِ جاں لے چلا
ہوش والے حشر کو سامانِ سودا لے چلے
سرمرا بے مغز تھا سودائے ساماں لے چلا
پارچے گنتی کے ہیں تربت میں نام ان کا کفن
ہی یہی خلعت جسے درویش و سلطاں لے چلا
میری نظروں میں جو دامانِ بیاباں تنگ تھا
اپنا دامن پھاڑ کر سوئے بیاباں لے چلا
پردے میں رہنے نہیں دیتا ہے معشوقوں کو حسن
شمع کو پروانوں کی محفل میں عریاں لے چلا
سر کو چکر دم کو الجھن دست و پا بے اختیار
اضطرابِ دل کدھر غلطاں و پیچاں لے چلا
بڑھتے بڑھتے آ گیا حدِّ جنوں پر شوقِ دید
پتلیوں کو سات پردوں میں بھی عریاں لے چلا
کھو نہ دے مجھ ناتواں کو گریۂ بے اختیار
ایک تنکے کو بہا کر جوشِ طوفاں لے چلا
آؤ حافظؔ چل کے دیکھیں تو سخن کا معرکہ
سنتے ہیں ہر مردِ میداں گوئے و چوگاں لے چلا
- کتاب : آئینۂ پیغمبر (Pg. 8)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.