ترے بدنامِ عاشق کا بھی کیسا نام نکلا ہے
ترے بدنامِ عاشق کا بھی کیسا نام نکلا ہے
کہ چرچے کی ہے بدنامی تو بدنامی کا چرچا ہے
کلیجے سے زیادہ درد تیرا ہم کو پیارا ہے
کلیجے سے لگا کر درد تیرا ہم نے رکھا ہے
چھپا کر میٹھے میٹھے درد کو سینے میں رکھا ہے
مزے لے لے کے دل کہتا ہے گُڑ چوری کا میٹھا ہے
نگاہِ مصطفیٰ دل کو کبھی گھر سے نکالے گی
ابھی تو تیر اس کا گھر بنا کر دل میں بیٹھا ہے
میں ننگے پاؤں خارستانِ دشتِ طیبہ میں پھرتا
یہ وہ کانٹا ہے جو اب تک مرے دل میں کھٹکتا ہے
مری آنکھوں میں آ کر دیکھ لیں سرکار آنکھوں سے
یہی دو در ہیں جن میں ہو کے سیدھا دل کا رستہ ہے
جبیں گھس لے نبی کے سنگ در پر آ کے اے صندل
اٹھاتا ہوں جو سر تو درد سر کے ساتھ اٹھتا ہے
مدینے جانے والے حسرتیں دل کی نکالیں گے
مدینے جانے والوں کو کوئی حسرت سے تکتا ہے
نہ بستر پر بھی چین آیا جگر کے دل کے ہاتھوں سے
جدھر کروٹ بدلیے درد کا پہلو نکلتا ہے
کوئی زائر مدینے جاتے ہی للہ کہہ دیتا
کہ اک ہندی تمہارا مرنے والا مرنے والا ہے
گئی جب عقل بیکس چھوڑ کر حضرت کے شیدا کو
تو آ کر حضرتِ سودا نے سر پر ہاتھ پھیرا ہے
عبث تدبیر کو الزام دیں تقدیر کو روئیں
کہ ہونے کو وہی ہوتا ہے جو قسمت میں ہوتا ہے
ہمارا بھی نیاز ایسا نہیں کوئی گیا گزرا
وہ شانِ بے نیازی پر کریں جو ناز زیبا ہے
مدینے کے تصور سے بھلا ہوتا نہیں جی کا
تصور پھر تصور ہے مدینہ پھر مدینہ ہے
وہ اک جلوہ تمہارا جس کے لاکھوں دل تمنائی
یہ اک کمبخت دل میرا کہ نا کامِ تمنا ہے
ذرا سے خاک کے پتلے کو دی ہیں قدرتیں کیا کیا
یہ پتلا خاک کا اللہ کی قدرت کا پتلا ہے
الٰہی ایک وہ دن تھا کہ میں طیبہ میں پھرتا تھا
وہی میں ہوں وہی طیبہ مری نظروں میں پھرتا ہے
دلِ خستہ سے ہو کیوں کر تحمل سخت جانی کا
لہو کے گھونٹ پی پی کر دہانِ زخم رستا ہے
مجھے روکیں مجھے زنجیر سے باندھیں مگر پھر بھی
وہی میں ہوں وہی طیبہ مری نظروں میں پھرتا ہے
نہ سمجھانے سے سمجھوں میں تو سمجھیں لوگ دیوانہ
نہ ٹھہرانے سے ٹھہرے دل تو وہ پارا ٹھہرتا ہے
ابھی تک یاد ہے روضے سے چلنا ہند کو حافظؔ
کہ پھر کر ہر قدم حسرت بھری نظروں سے دیکھا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.