کچھ تو دیدار میں ایسا ہی مزا رکھا ہے
کچھ تو دیدار میں ایسا ہی مزا رکھا ہے
روزِ محشر کے لیے جس کو اٹھا رکھا ہے
اک تجلی کے لیے بس ہے مرا خرمنِ صبر
ایک بجلی کے لیے ڈھیر لگا رکھا ہے
نام دھرتے ہیں ترے عشق میں کیا کیا ناداں
مجھ کو دیوانوں نے دیوانہ بنا رکھا ہے
دل میں ارمان بھی ہے، درد بھی ہے، داغ بھی ہے
گھر میں سب کچھ مرے مولا کا دیا رکھا ہے
ہدف تیرِ ملامت تو نہ بن جائے وہ دل
ہدفِ تیرِ نگہ جس کو بنا رکھا ہے
کون سا شعر کروں پیش، یہی ہے پس و پیش
ایک دیوان کا دیوان لکھا رکھا ہے
ہے وہ کثرت جو بتاتی ہے پتہ وحدت کا
ہے وہ وحدت جسے کثرت میں چھپا رکھا ہے
آشنا سر حقیقت سے، زبانیں کیا ہوں
یہ وہ معنیٰ ہے جو لفظوں سے جدا رکھا ہے
تم کو بگڑے ہوئے حالوں کا بنانا ہے پسند
ہم نے بگڑا ہوا احوال بنا رکھا ہے
میری آہوں کے ہیں جھونکے جو سلامت حافظؔ
ایک دن بیچ کا پردہ بھی اٹھا رکھا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.