اس سراپا ناز سے جب سے شناسائی ہوئی
اس سراپا ناز سے جب سے شناسائی ہوئی
چل بسے صبر و سکوں رخصت شکیبائی ہوئی
ایک ملنے سے ترے یہاں تک تو رسوائی ہوئی
موت بھی بالیں سے میرے پھر گئی آئی ہوئی
بن ترے ہے وہ اداسی بزم میں چھائی ہوئی
شمع ہے گل کاٹنے پر بھی تو مرجھائی ہوئی
عاشقی میں ناصحا مانا کہ رسوائی ہوئی
پھر نہیں سکتی طبیعت بھی مگر آئی ہوئی
اس لبِ جاں بخش کو میں دیکھتے ہی مر گیا
صدقے اس اعجاز کے اچھی مسیحائی ہوئی
ہائے فرقت میں نہ پھٹکا کوئی مجھ تک زنہار
موت بھی کم بخت اگر آئی تو بلوائی ہوئی
دولت و اقبال ہیں موقوف اس کے دین پر
خوش نصیبی کب کسی کی ملک آبائی ہوئی
ہم نے دیکھا چینٹیوں کو شیر بنتا لاکھ بار
اور ہزاروں بار دیکھا کوہ سے رائی ہوئی
ہو رہا تو بھی اسی بت کا جمالیؔ کی طرح
اے دلِِ ناداں بھلا کیا خاک دانائی ہوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.