تکلف کب تک آخر اے گرفتارِ ادب دانی
تکلف کب تک آخر اے گرفتارِ ادب دانی
وہ نالہ کر کہ مل جائے بنائے عالم فانی
حواسوں میں لگا دے آگ اپنے سوزِ دل سے خود
کہاں تک ان مصائب ریز چشموں کی نگہبانی
مقدر تک بھی اب ان آنسووں پر خون روتا ہے
جنہیں روزِ ازل سے ہے جنونِ طوف مژگانی
پرستش کی غرض سے فطرت دل چاہتی ہے کچھ
مبادا اہرمن کو پوجنے لگ جائے یزدانی
اجازت نالۂ بے اختیار رو آہ پیہم کو
تحمل کی حدوں سے بڑھ چکی ہے اب گراں جانی
گریباں فی امان اللہ اے دامن خدا حافظ
اسیر مجلس ملبوسی کب تک جذب عریانی
لگی ہی آگ وہ دل میں جو تجھ نے کی نہیں ہرگز
نہیں کچھ فائدہ اس پر نہ ڈال اے ہم نفس پانی
شریک درد ہو جائیں اگر ہمدرد ہیں میرے
کہ مجھ پر ہے گراں احباب کے دل کی پریشانی
میں اپنے درد کی کرتا ہوں اپنے آپ خود عزت
زمانہ کر رہا ہے پیش اپنا عذرِ نادانی
تعالی اللہ میرا درد ہے وہ درد عالم میں
کہ جس کے شوق میں ہیں حاملانِ عرش رحمانی
یہی وہ درد ہے جس کو محبت پیار کرتی ہے
اسی کی شیفتہ ہے در حقیقت اصل انسانی
یہی وہ درد ہے قربان ہے ہر اہل دل جس پر
زمانہ میں یہی ہے اک ثبوت آبِ حیوانی
کہوں میں درد اس کو یا کمالِ جوہرِ ذاتی
کہ استعدادِ فطرت کی کہوں یہ مرتبہ دانی
ذرا معلوم اہلِ حال کو ہو درد کی عظمت
لکھوں توصیف میں اس کی رزؔی اک مطلع ثانی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.