زمانے میں وہ مہ لقا ایک ہے
ہزاروں میں وہ دلربا ایک ہے
خداوند ِارض وسما ایک ہے
قسم ہے خدا کی خدا ایک ہے
برابر ہے اپنا وجود وعدم
ہماری بقا اور فنا ایک ہے
عدم ابتدا ہے عدم انتہا
مری ابتدا انتہا ایک ہے
نہ ہوں گے یہ حادث رہے گا قدیم
غرض سب ہیں فانی بقا ایک ہے
ذرا غور سے مرأتِ دل کو دیکھ
یہ آئینۂ حق نما ایک ہے
جنہیں کفر و الحاد کہتا ہے شیخ
فقط پھیر ہے راستا ایک ہے
جہاں میں ہیں غافل بہت سے طریق
مگر راہ ِصدق وصفا ایک ہے
مآلِ سخن ذکر ہے یار کا
کہوں کس طرح مدعا ایک ہے
محل فقر کا ہے عجائب مقام
یہاں مسند وبوریا ایک ہے
کہاں اس کے آگے کسی کا فروغ
وہ خورشید رو مہ لقا ایک ہے
فضیلت ملی ایک کو ایک پر
غرض ایک سے یاں سوا ایک ہے
جفاکار دم باز کاذب محیل
میں واقف ہوں وہ بے وفا ایک ہے
ہے انبوہ ِعشاق عیسیٰ کے گھر
مریض اتنے دارالشفا ایک ہے
نہیں بچتا دونوں کا مارا ہوا
تری زلف اور اژدھا ایک ہے
نہ آنا تو اس زلف کے پیچ میں
ارے دل وہ کالی بلا ایک ہے
ہزاروں شہیدِ محبت ہیں دفن
گلی اس کی اور کربلا ایک ہے
ہر اک درد کا ہے مداوا وہ لب
مرض سیکڑوں ہیں دوا ایک ہے
کہوگے جو کچھ تو سنوگے بھی رندؔ
ہنسی میں تو شاہ وگدا ایک ہے
مأخذ :
- کتاب : دیوان رند (Pg. 286)
- Author : سید محمد خان رندؔ
-
مطبع : منشی نول کشور، لکھنؤ
(1931)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.