ایک جہاں دیوانہ اس زلفِ دوتاکا ہوگیا
ابتدا ہی میں یہ سودا انتہا کا ہوگیا
آپ کو کھویا مگر جویا خدا کا ہوگیا
راز جس پر منکشف فقرو فنا کا ہوگیا
ہم کو بھی آخر حضورِ قلب ہوتا ہے کبھی
عرض کرلیں گے جو موقع التجا کا ہوگیا
کیا اثر پھیلا ہے میرے نالۂ جانسوز کا
شعلۂ آتش ہر اک جھونکا ہوا کا ہوگیا
حائلِ نظارۂ دیدار کیا ہوگی نقاب
دور پردہ جس گھڑی شرم وحیا کا ہوگیا
اس نگاہِ تیز سے دل ہوگیا جس دم دوچار
میں نے جانا سامنا تیرِقضا کا ہوگیا
سجدۂ عاشق سے او بت تجھ کو کیا حاصل ہوا
مفت بے ایمان اک بندہ خدا کا ہوگیا
حور کے غمزے اسے جنت میں کیا خوش آئیں گے
اے پریرو کشتہ جو تیری ادا کا ہوگیا
بت پرستی میں جو آئی اس بتِ کافر کی یاد
نالۂ ناقوس میں عالم بکا کا ہوگیا
یاد آیا ہے کہ معشوقوں میں بھی تھیں الفتیں
قحط اپنے عہد میں مہرو وفا کا ہو گیا
ٹالنا منظور تھا ہر چند پہلے سے ولے
حیلۂ معقول صاحب کو حنا کا ہوگیا
پائینچے اس شوخ کے پر بن گئے اڑنے لگا
بادپا اس ترک کے نیچے ہوا کا ہوگیا
خار وخس ہوتے ہیں پیدا جس جگہ تھے سرووگل
کیا چمن میں اختلاف آب و ہوا کا ہوگیا
ہے یہی عالم نموئے یار کا تو دیکھنا
کچھ دنوں میں وہ قد ِبالا بلا کا ہوگیا
یاد میں اس راست قامت کے یہ کی فریاد رندؔ
وہ قد بِالا الف آخر ندا کا ہوگیا
مأخذ :
- کتاب : دیوان رند (Pg. 245)
- Author : سید محمد خان رندؔ
-
مطبع : منشی نول کشور، لکھنؤ
(1931)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.