نیچی کرلیتے ہیں شرما کر دمِ گفتار آنکھ
بات بھی کرتے نہیں مجھ سے وہ کر کے چار آنکھ
رات دن وا ہے مثالِ دیدۂ بیدار آنکھ
پھوڑ ڈالے گا تو کیا اے انتظارِ یار آنکھ
کیا عجب ہے جو جھکی رہتی ہے تیری یار آنکھ
بیشتر کم کھولتے ہیں مردم ِبیمار آنکھ
مے پلا ہر ایک کو اس کے بقدر ِحوصلہ
ساقیا پہچان لینا مست اور ہشیار آنکھ
حسرتِ دیدار نے پیدا کیا حالِ ردی
پھیردے گا اب کوئی دم میں ترا بیمار آنکھ
جان قرباں ان اشاروں کے ہلا ابرو کو تو
صدقے اس چشمک زنی کے بے تکلف بار آنکھ
صورتِ ناسور کیوں ہردم بنا کرتی ہے تو
مجھ کو بتلادے کہ کیا تجھ کو ہوا آزار آنکھ
غش میں رہتا ہوں پڑا اکثر کیے آنکھوں کو بند
کھولنے دیتی نہیں ہے حسرتِ دیدار آنکھ
دل کو لے جائے چرا کر ایک پر ثابت نہ ہو
کام کرجائے ہزاروں میں تری عیار آنکھ
حسن کی طالب اگر وہ ہے تو ہونے دے دلا
تجھ کو کیا مطلب ہے اپنے فعل کی مختار آنکھ
منہ دکھا بہرِ خدا بس ہوچکا شرم و حجاب
کب تلک ترسے ترے دیدار کو اے یار آنکھ
نور زائل ہوگیا تو جو نہیں پیشِ نظر
دیدۂ تصویر کے مانند ہے بیکار آنکھ
ہے کھٹکتی بے ترے نظارۂ گلزار سے
برگ ِگل کو جانتی ہے شکلِ نوکِ خار آنکھ
گل تھے انگارے نظر میں بے ترے سنبل دھواں
جاپڑی تھی اتفاقاً جانبِ گلزار آنکھ
عکس ہے تیرا جو ہے تیرے مقابل دیر سے
ڈالتا ہے کیوں کڑی آئینہ پر ہر بار آنکھ
ہے پیا خون ِدلِ عشاق پیہم بسکہ رندؔ
دیدۂ مریخ سے ہے سرخ وہ خونخوار آنکھ
مأخذ :
- کتاب : دیوان رند (Pg. 124)
- Author : سید محمد خان رندؔ
-
مطبع : منشی نول کشور، لکھنؤ
(1931)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.