شعلۂ رخسار دلبر کو دکھایا رات بھر
خوں رلایا شمع کو میں نے جلایا رات بھر
زلف ِشبگوں کے تصور نے جگایا رات بھر
یاد نے چاہِ زنخدان کی رلایا رات بھر
ماہ رو دلبر سے شب کو بام پر صحبت ہوئی
چاند کو انگاروں پر میں نے لٹایا رات بھر
لب بلب سینہ بسینہ صبح تک تھے یار سے
وصل کی شب ہم نے کیا کیا لطف اٹھایا رات بھر
تاسحر آیا نہ میرے پاس وہ وعدہ خلاف
پاؤں پیغامی کے توڑے اور تھکایا رات بھر
ساتھ اپنے لے کے سویا گل بدن محبوب کو
جسم کے جامے کو پھولوں میں بسایا رات بھر
شام سے تا صبح و صفِ عارض ِگلگوں کیا
باغ میں بلبل کو کانٹوں پر لٹایا رات بھر
ہجر کی شب یار بن مجھ کو سلانے آئی تھی
چٹکیوں میں نیند کو میں نے اڑایا رات بھر
نو جواں دلبر سے باتوں ہی میں ہوجاتی سحر
بخت ِخفتہ نے نہ کیوں اک دن جگایا رات بھر
شام سے اس کو تصور روئے نورانی کا تھا
گیسوؤں کا رندؔ نے مضموں بنایا رات بھر
مأخذ :
- کتاب : دیوان رند (Pg. 59)
- Author : سید محمد خان رندؔ
-
مطبع : منشی نول کشور، لکھنؤ
(1931)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.