مقابل آر سی میں حسن جو اس کا نمایاں تھا
مثال ِآئینہ وہ آئینہ رو خود بھی حیراں تھا
صبا کی طرح دیر و کعبہ میں جس کا میں جو یاں تھا
برنگ بوئے گل دیکھا تو وہ تجھ میں ہی پنہا ں تھا
جنوں پر دست کاری کا فقط یاروں کا بہتاں تھا
مثالِ صبح چاک اپنا ازل ہی سےگریباں تھا
نہ احسانِ کفن لوں گا کسی کا مرگئے پھر بھی
برہنہ جاؤں گا دنیا سے میں آیا بھی عریاں تھا
تعلق جیب سے دامن کا تھا منظور چھوڑوانا
فقط اس واسطے مجھ سے جنوں دست و گریباں تھا
ہنوز آگہ نہ تھا تو رسم ناوک افگنی سے بھی
کمان ابرو پہ مرغ ِدل جبھی سے تجھ پہ قرباں تھا
بنایا صبح ہوتے راکھ کا ڈھیر آہ ِسوزاں نے
مثال ِشمع شب کی شب میں اس محفل میں مہماں تھا
نہ لوٹوں کس طرح کاٹوں پہ دوری میں گلستاں کی
وہ بلبل ہوں کہ فرش ِخواب جس کا گل کا داماں تھا
مرے باعث سے ہے عالم میں شہرہ تیری صورت کا
وگرنہ مصحفِ رو تیرا کس کافر کا ایماں تھا
دبستانِ محبت میں مری تحصیل افزوں ہے
اگر مجنوں تھا ابجدخواں تو مجھ کو حفظِ قرآں تھا
ترا دیوانہ جس وادی میں تھا اے غیرت ِلیلیٰ
پرے مجنوں کے جنگل سے بھی وہ کوسوں بیاباں تھا
جلایا تھا مجھے کس مہروش کے سوزِ فرقت نے
ہر اک ذرہ جو میری خاک کا خورشیدِ تاباں تھا
نہ چھٹکارا ہوا صحرا میں بھی ایذا دہندوں سے
لہو کا میرے پیاسا یاں بھی ہر خارِ بیاباں تھا
یہ مزدِ بندگی ہےگر دیا جنت مجھے یارب
سوا اس کے اگر کچھ اور دےدیتا تو احساں تھا
ہوا خود ہی مذل دشمن وہ کیا ذلت مجھے دیتا
خدا اس بندۂ عاصی کی عزت کا نگہباں تھا
نشاں تک بھی نہ رکھا میرا ہوکر صبح پیری نے
مثال ِشبنم اس گلشن میں شب کی شب کا مہماں تھا
نہ چھوٹا فقر میں بھی پیشۂ مردانگی اے رندؔ
نیستاں بوریا تھا میرا میں شیر نیستاں تھا
مأخذ :
- کتاب : دیوان رند (Pg. 11)
- Author : سید محمد خان رندؔ
-
مطبع : منشی نول کشور، لکھنؤ
(1931)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.