Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

ہم نے مانا وہ کمر اہلِ نظر ملتی نہیں

رند لکھنوی

ہم نے مانا وہ کمر اہلِ نظر ملتی نہیں

رند لکھنوی

MORE BYرند لکھنوی

    ہم نے مانا وہ کمر اہلِ نظر ملتی نہیں

    کوئی دکھلا دے دہن ہے گر کمر ملتی نہیں

    کیا فقط بینش کو اے اہلِ نظر ملتی نہیں

    واہمہ بھی ڈھونڈھتا ہے پر کمر ملتی نہیں

    غیر ممکن ہے کہ بے صندل لگائے دور ہو

    درد ِسر کی بھی دوا بے درد ِسر ملتی نہیں

    وصل کی شب پھیردوں تیرے گلے پر ہائے ہائے

    کیا کروں مجھ کو چھری مرغ ِسحر ملتی نہیں

    جس کے پیچ وتاب سے کھائے رگ ِجاں پیچ تاب

    کہتے ہیں شاعر مگر ایسی کمر ملتی نہیں

    روز وشب کیونکر نہ سینے میں جلے مانند شمع

    بتی مرہم کی پئے داغِ جگر ملتی نہیں

    دل کے لگ جانے پہ ہے موقوف اپنی دیکھ بھال

    دل نہیں ملتا کسی سے تو نظر ملتی نہیں

    آنکھ بدلی کس لئے ایسے ہوئے بےدید کیوں

    اپنے ہم چشموں سے بھی اب تو نظر ملتی نہیں

    مقتضا تیری جہالت کا ہے لیتا ہے جو آڑ

    روکے جو تیغِ قضا ایسی سپر ملتی نہیں

    اس پری کو مال کی خواہش ہے میں مردِ فقیر

    کیا کروں لوح ِطلسمِ گنجِ زرملتی نہیں

    ہے دمِ آخر مرا سن لے وصیت آن کر

    اتنی مہلت کیا تجھے او حیلہ گر ملتی نہیں

    خاکپا اس غیرت خورشید کی چہرے پہ مل

    تجھ کو داروئے کلف کیا او قمر ملتی نہیں

    باندھوں پشتارہ گناہوں کا نہ کیونکر پیٹھ سے

    بار برداری تو ہنگام ِسفر ملتی نہیں

    سانس لینے کا کسے یارا ہے فرطِ ضعف سے

    حال ِدل کچھ کہتے قدرت اس قدر ملتی نہیں

    ہے بہ از صندل اگر ہاتھ آئے خاک ِپائے یار

    سر پٹکتا ہوں دوائے دردِ سر ملتی نہیں

    حسنِ حیرت زا سے تیرے پتلیاں پتھرا گئیں

    اب پلک سے بھی پلک دو دوپہر ملتی نہیں

    صبح لے جاتا ہے رقعہ شام کو لاتا ہے پھیر

    یار کی ڈیوڑھی مجھے کیا نامہ بر ملتی نہیں

    ہنستے ہنستے کھول دیتاہے اگر جوڑا کبھی

    ایسی چھپ جاتی ہے بالوں میں کمر ملتی نہیں

    رندؔ ہے سرکارِ عالی میں قدیمی جاں نثار

    کب اسے خلعت میں شمشیر و سپر ملتی نہیں

    مأخذ :
    • کتاب : دیوان رند (Pg. 265)
    • Author : سید محمد خان رندؔ
    • مطبع : منشی نول کشور، لکھنؤ (1931)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے