Sufinama

خوبرو جتنے زمانے میں ہیں سب عیار ہیں

رند لکھنوی

خوبرو جتنے زمانے میں ہیں سب عیار ہیں

رند لکھنوی

MORE BYرند لکھنوی

    خوبرو جتنے زمانے میں ہیں سب عیار ہیں

    آشنا اپنی غرض کے ہیں یہ کس کے یار ہیں

    اب تو در پردہ یہی اس شوخ کے اظہار ہیں

    آ نہیں سکتے ہیں ہم مجبور ہیں لاچار ہیں

    آہی چکتے ہیں نہ کرتے وصل کا انکار ہیں

    مدتیں گذریں یہی وعدے یہی اقرار ہیں

    سبزۂ بیگانہ ساں سب کی نظر میں خار ہیں

    خار سے بدتر ہیں ہم گو رونق ِگلزار ہیں

    عالمِ نیرنگ میں خاطر پہ کس کے بار ہیں

    مست ہیں مستوں میں ہشیاروں میں ہم ہشیار ہیں

    مردمانِ چشمِ دلبر کو شفا اللہ دے

    کس طرح صحت ہو بدپرہیز یہ بیمار ہیں

    یا صنم دل میں ہے لب پر یا صمد بہرِ ریا

    کفر اس ایماں سے بہتر جیسے اب دیندار ہیں

    سبزۂ خط نے نہیں اب تک کیا نشو ونما

    عارض ِرنگیں ترے اے گل گلِ بے خار ہیں

    ہاتھ الجھے ہیں گریباں سے نہ پا زنجیر سے

    اے جنوں مدت سے میرے دست وپا بیکار ہیں

    پاسِ رسوائی ہے تم کو ضبط یاں ممکن نہیں

    تم اگر مجبور ہو مشفق تو ہم ناچار ہیں

    جس طرف کو دیکھیے موجود ہیں یوسف لقا

    ہند کے کوچے نہیں ہیں مصر کے بازار ہیں

    کردیا رشکِ گلستاں جسم کو کھا کھاکے گل

    اپنے داغوں کی بدولت آپ ہم گلزار ہیں

    آتے ہی کرتے ہو جانے کا ارادہ وجہ کیا

    سوچئے تو کیا ہمارے آپ کے اقرار ہیں

    ہنستے ہنستے مرگیا جس نے نظر کی سوئے بام

    یار کے کوٹھے نہیں ہیں قہقہ دیوار ہیں

    پاؤں میں ہے طاقت ِرفتار تا اثنائے راہ

    پہنچے جب جاکر گلی میں اس کے پھر دیوار ہیں

    دوسرا ہمسا کوئی مردودِ کفر و دین ہے

    قابل ِتسبیح ہیں نے لائق ِزنار ہیں

    اک زمانے سے نرالی ہے تمہاری بول چال

    والۂ ِگفتار ہیں وا رفتۂ رفتار ہیں

    قبر میں بھی جاؤں گا تو ساتھ جائیں گے مرے

    حسرت و اندوہ حرماں میرے یار ِغار ہیں

    یوں نہیں رہنے کا بدلیگا جہاں کا انتظام

    کل وہی مجبور ہوں گے آج جو مختار ہیں

    نذر تیرے کر چکا ہوں میں گریباں اب کہاں

    یادگارِ موسمِ گل اے جنوں کچھ تار ہیں

    دوستانہ گفتگو بھی اس کی بے پہلو نہیں

    ضمن میں اقرار کے سو طرح کے انکار ہیں

    مختلط ہو ان سے جن کے نام سے تھا ننگ و عار

    آگے نامحرم تھے جو اب محرمِ اسرار ہیں

    ہر رگ وپے سست ہے رعبِ جمال ِیار سے

    صورتِ مفلوج میرے دست و پا بیکار ہیں

    کیا ہماری اصل اور بنیاد ِاستحکام کیا

    ایک دن ڈھ جائیں گے آخر گلی دیوار ہیں

    اب نہ آنے کی تمہارے وجہ سمجھے مہرباں

    اس لیے پرہیز کرتے ہو کہ ہم بیمار ہیں

    کون سی صورت ہماری زیست کی بتلاؤ رندؔ

    ایک جانِ ناتواں ہے سینکڑوں آزار ہیں

    مأخذ :
    • کتاب : دیوان رند (Pg. 108)
    • Author : سید محمد خان رندؔ
    • مطبع : منشی نول کشور، لکھنؤ (1931)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے