دل میرا شیشہ نہ تھا دیتا صدا جو ٹوٹ کر
بہہ گیا ہمراہ اشک اک آبلہ سا پھوٹ کر
کیا مداوا دل کی بیتابی کاکرتا ہجر میں
چیر کرپہلو اگرمرچیں نہ بھرتا کوٹ کر
آب وتاب ِچشم ِجاناں دیکھ کر ثابت ہوا
بھر دیے ہیں صانعِ قدرت نے موتی کوٹ کر
خاک اڑتی ہے چمن میں اب کہاں لطفِ بہار
کردیا تاراج گلشن کو خزاں نےلوٹ کر
فصد لیتے ہیں مری رفعِ جنوں کے واسطے
لطف ہو شریاں میں رہ جائے جو نشتر ٹوٹ کر
پار ہوتی ہے جگر کے آج فریادِ جرس
کوئی پیچھے رہ گیا ہے قافلے سے چھوٹ کر
دل نے اےجراح پیدا کی ہے پھوڑے گی تپک
چھیڑدے نشتر سے گربہتا نہیں ہےپھوٹ کر
لے خبر اپنے مریضِ عشق کی عیسیٰ نفس
مردنی سی چھاگئی ہے منہ پہ نبضیں چھوٹ کر
ہجر کی شب اضطرابِ دل سےہوتا ہے یقیں
اب دم اکھڑا اب کلیجا منہ کو آیا ٹوٹ کر
دل جو بھر آیا تہی جام و صراحی دیکھ کر
ہچکیاں لے لے کے میکش خوب روئے پھوٹ کر
عاشق ِصادق ہے تیرا رندؔ دل اس کا نہ توڑ
شیشہ بن سکتا ہے دل بنتا نہیں پھر ٹوٹ کر
مأخذ :
- کتاب : دیوان رند (Pg. 60)
- Author : سید محمد خان رندؔ
-
مطبع : منشی نول کشور، لکھنؤ
(1931)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.