جو دل ہے مرے پاس وہ دل نہیں ہے مگر ایک ناداں ہے میرے بغل میں
جو دل ہے مرے پاس وہ دل نہیں ہے مگر ایک ناداں ہے میرے بغل میں
صادق علی شاہ
MORE BYصادق علی شاہ
جو دل ہے مرے پاس وہ دل نہیں ہے مگر ایک ناداں ہے میرے بغل میں
مرے اشکِ خونی سے تر آستیں ہے یہ چشمانِ طوفاں ہے میرے بغل میں
لے نامے کو ہاتھوں میں روزِ قیامت کے دن سارے ہوویں گے محشر میں حاضر
کھڑا ہوں گا جا میں بھی خم ٹھونک اس میں کہ تصویرِ جاناں ہے میرے بغل میں
مژہ سے چلے گرچہ بادِ صبا بھی اور آ جاوے پھر جو کبھو وہ چمن میں
اگر غنچہ گل ہو کہ گل ہووے غنچہ تو بو اس کی پنہاں ہے میرے بغل میں
گلی سے اگر اس کی قاصد بھی گذر ے جو سر کو بھی وارے وہ اس کے قدم پر
تو اشکوں کے گرنے میں مانندِ طفلاں کہوں گا کہ اس آں ہے میرے بغل میں
میں نازاں ہوں غمزوں کے تیروں سے اس کے نہیں ہے یہ آزار لذت کا مجھ کو
جراحت کہاں ہے جو مرہم کرے کوئی مگر نوکِ پیکاں ہے میرے بغل میں
بھلا خیر صادقؔ بہ بازارِ محشر میں کیوں کر کہ سودا پہ تیرا بنے گا
کہ اس کے تو ہاتھوں میں ہے نقدِ جاں بخش مگر جنسِ عصیاں ہے میرے بغل میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.