حقیقت پوچھتا ہے مجھ سے کیا او باغباں میری
حقیقت پوچھتا ہے مجھ سے کیا او باغباں میری
چمن کے پتے پتے پرلکھی ہے داستاں میری
اڑا کر اے صبا تو خاک لائی ہے کہاں میری
جھکی پڑتی ہے جو ملنے کو شاخ آشیاں میری
مزے دے سننے والوں کو ذرا کچھ داستاں میری
کھلے یارب زبان قصہ گو ہو کر زباں میری
جوانی جاچکی صورت نہ دیکھ او باغباں میری
بہار باغ جنت ہوگی اک دن یہ خزاں میری
وہ مجھ کو ہوش میں آنے نہیں دیتی جب آتی ہے
تمہاری یاد تم سے بڑھ کے نکلی مہرباں میری
حیا کی تیرے او بیداد گر میں داد دیتا ہوں
وہیں گردن جھکا لی دیکھ لی صورت جہاں میری
مزے آتے وہ تنہائی میں مل جاتے تو یہ کہتا
کہو کچھ سرگذشت اپنی سنو کچھ داستاں میری
لگا اک ہاتھ اے قاتل کہ بیڑا پار ہو میرا
بھنور میں پڑ گئی ہے کشتی عمرِ رواں میری
خود آئینے میں اپنے عکس سے آنکھیں چراتا ہوں
بنا دی تو نے کیا صورت یہ اے درد نہاں میری
جو فخر لکھنؤ ہے خوشہ چیں ہوں اس کا اے صفدرؔ
نہ مانیں گے مگر اہل زباں پھر بھی زباں میری
- کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلدبارہویں (Pg. 199)
- Author : عرفان عباسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.