نفس پر اپنے ہمیں اختیار تک نہ رہا
نفس پر اپنے ہمیں اختیار تک نہ رہا
کہ زندگی کا کوئی اعتبار تک نہ رہا
یہ بیخودی کا اثر ہے کہ اب دم سجدہ
تصورِ خم ابروئے یار تک نہ رہا
نگاہیں پھر گئیں ان کی تو کیا تعجب ہے
رفیق اپنا دلِ بے قرار تک نہ رہا
وہ حسنِ ناز و ادا کا یہ جبر تو دیکھو
کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار تک نہ رہا
شبِ فراق مزا کیا ملے گا آنکھوں کا
انہیں تو حوصلۂ انتظار تک نہ رہا
وہ جاں نثار محبت کہاں زمانے میں
مرے سوا کوئی امیدوار تک نہ رہا
خزاں نے لوٹ کے برباد کر دیا شاید
بہار کیا چمنِ پر بہار تک نہ رہا
یہ بے کسی کا سماں ہے کہ بعد مرنے کے
سرِ مزار کوئی سوگوار تک نہ رہا
خزاں رسیدہ چمن کی ہو خاک سیراب
فلک پہ لکۂ ابرِ بہار تک نہ رہا
ہمیں ہے شکوۂ ستمگر سے اس کا اے عاشقؔ
کہ عاشقوں میں ہمارا شمار تک نہ رہا
- کتاب : Dastaar Bandi (Pg. 4)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.