Font by Mehr Nastaliq Web

بتوں کا عشق تو دل پر لیا پر اٹھ نہیں سکتا

شاہ امین الدین قیصر

بتوں کا عشق تو دل پر لیا پر اٹھ نہیں سکتا

شاہ امین الدین قیصر

بتوں کا عشق تو دل پر لیا پر اٹھ نہیں سکتا

اٹھاتے ہیں مگر ہم سے یہ پتھر اٹھ نہیں سکتا

ہمیں پہنچائیں گے پائے تصور اس کے کوچے میں

مثالِ نقش پا گو ضعف سے سر اٹھ نہیں سکتا

جگا کر فتنہ خوابیدہ ٹھوکر سے وہ کہتے ہیں

ہماری چال سے کس طرح محشر اٹھ نہیں سکتا

توجہ سے تیری میخانۂ رنداں میں اے ساقی

صراحی چل نہیں سکتی کہ ساگر اٹھ نہیں سکتا

ہماری ضعف نے یہ دشت میں سکّے بیٹھائے ہیں

بگولہ بھی کوئی اے بادِ صرصر اٹھ نہیں سکتا

فلک نے پاؤں میں ڈالا میرے پھندا قناعت کا

قدم اب گوشہِ عزلت سے باہر اٹھ نہیں سکتا

نزاکت خود دمِ رفتار بسم اللہ کہتی ہے

کمر سے بار گیسوئے معنبر اٹھ نہیں سکتا

غضب ہے تجھ کو نامِ جامۂ عریاں بھی بھاری ہے

تیرا تو ناز اب اے جسمِ لاغر اٹھ نہیں سکتا

میرا خط کس طرح اے آسماں منزل تجھے پہنچے

پر جبریل سے یہ غم کا دفتر اٹھ نہیں سکتا

تقاضہ ہے یہ جلا دی کا مقتل کس طرح چلئے

نزاکت کہہ رہی ہے یہ کہ خنجر اٹھ نہیں سکتا

حریصان جہاں ہر چند چاہیں لے نہیں سکتے

مرے دم تک مرا رزقِ مقدر اٹھ نہیں سکتا

ہمارے قتل کو تیغِ نگاہِ ناز کافی ہے

یہ مانا ہم نے قاتل تجھ سے خنجر اٹھ نہیں سکتا

فقیری تیرے کوچے کی کہیں بہتر ہے شاہی سے

تیرے دولت سرا سے مر کے قیصرؔ اٹھ نہیں سکتا

مأخذ :

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے