برباد وہ بھی باغ ہے جس میں کہ تو نہ ہو
برباد وہ بھی باغ ہے جس میں کہ تو نہ ہو
کانٹا ہے وہ بھی پھول اگر تیری بو نہ ہو
پردے میں گفتگو کوئی اے جنگ جو نہ ہو
جو بات چست ہو وہ ترے روبرو نہ ہو
ساغر میں عکس زلفِ معنبر کا ڈالئے
پانی ہے وہ شراب کہ جو مشکبو نہ ہو
پردے میں بھی طواف کے ہے جستجو تری
میری طرح خراب کوئی چار سو نہ ہو
ہذا فراق بینی وبینک جو وہ کہیں
ایسی مجھے نصیب کبھی گفتگو نہ ہو
اے یار چھوڑ اپنی تلون مزا جیاں
دشمن کی دوستی سے ہمارا عدو نہ ہو
شیرینی کلام کی وہ چاٹ دیجئے
شکوہ تک آشنائے زبانِ عدو نہ ہو
اے دل سمجھ کے کوچۂ گیسو میں جائیو
واں کشمکش بہت ہے پریشان تو نہ ہو
ہے حکم یہ کہ قیدیٔ کاکل نہ غل کریں
ڈھیلا تمام شب کوئی طوقِ گلو نہ ہو
اے مرغِ نامہ بر مرا خط اڑ کے جائے گا
پرواا نہیں ہے اس کی مجھے ہو کہ تو نہ ہو
آیا ہے بھول کر تو ادب دے نہ ہاتھ سے
زاہد بہ بتکدہ ہے یہاں قبلہ رو نہ ہو
بے کیف ہے چمن بھی گھٹا بھی شراب بھی
اسبابِ عیش خاک ہیں ساقی جو ہو تو نہ ہو
زاہد یہ میکدہ ہے نہ کر شست شوکی فکر
مسجد نہیں ہے یاں یہ مقامِ وضو نہ ہو
پروا نہیں ہے دشمنئ غیر کی مجھے
قیصرؔ جو مہرباں نہیں ہے عدو نہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.