سر میں سودا ہو ترا دل میں تری یاد رہے
سر میں سودا ہو ترا دل میں تری یاد رہے
اس سے جو بچے رہے بس وہی برباد رہے
مذہبِ عشق میں جینا ہے انہیں لوگوں کا
جن کو ہر وقت ترا دھیان تری یاد رہے
تا در یار کبھی اپنی رسائی نہ ہوئی
ہم اسی دھن میں اسی فکر میں برباد رہے
نہ کھنچی پر نہ کھنچی اس گل تر کی تصویر
عاجز اس میں قلم نمائی بہزاد رہے
ایک دن بھی نہ ہوا وصل نصیب اس گل کا
عشق کا پھل یہ ملا مائلِ فریاد رہے
سخت جانی مری تلواروں کا منہ موڑ نہ دے
ساتھ تلوار کو اک خنجرِ فولاد رہے
قتل کرکے مجھے کس ناز سے فرماتے ہیں
میری کشتی کو یہ احسان مرا یاد رہے
میں وہ محسنؔ ہوں کہ ارباب کرم کا ہوں غلام
میرے بدخواہ کو بھی نام مرا یاد رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.