میری طرف بھی دیکھ او بانئ ابتدائے عشق
میری طرف بھی دیکھ او بانئ ابتدائے عشق
مجھ کو بھی شوق سے دکھا جلوۂ انتہائے عشق
جس کی سمجھ میں آگئے معنئ ابتدائے عشق
اس کی سمجھ میں آگیا مطلبِ انتہائے عشق
خود ہی بنا ہوا ہے جو مخزنِ ابتدائے عشق
خود ہی بنا ہوا ہے وہ معدنِ انتہائے عشق
خود ہی سنا رہا ہوں میں معنیِ ابتدائے عق
خود ہی بتا رہا ہوں میں مطلبِ انتہائے عشق
عینِ مکاشفہ ہے یہ آپ ہوں ابتدائے عشق
عینِ مشاہدہ ہے یہ آپ ہوں انتہائے عشق
جان میں جان آگئی دیکھ کے ابتدائے عشق
جان جہاں بن گیا دیکھ کے انتہائے عشق
مجھ کو شروع سے نہ دے ساغرِ ابتدائے عشق
مجھ کو اخیر تک پلا ساغرِ انتہائے عشق
خضرِ رہِ طریق بن ہے یہی ابتدائے عشق
بندہ نہ بن خدا نہ بن ہے یہی انتہائے عشق
جلوۂ نورِ حق بنا مبداء ابتدائے عشق
شکلِ محمدی بنی مرجعِ انتہائے عشق
آیا ہوں پڑھ کے وہ سبق جس سے ہے ابتدائے عشق
جاؤں گا لے کے وہ سبق جس سے ہو انتہائے عشق
ساقئ خوش ادا نے دی جب مئے ابتدائے عشق
مستِ خراب لے اڑا ساغرِ انتہائے عشق
وقت مدد ہے ساقیا میں ہوں اور ابتدائے عشق
مجھ کو نہ بھول جائیو تو ہے اور انتہائے عشق
لوحِ زبان پہ چلا خامۂ ابتدائے عشق
صفحۂ دل پہ لکھ دیا نامۂ انتہائے عشق
کیا کہوں مجھ پہ کیا بنی دیکھ کے ابتدائے عشق
کیا کہوں پھر میں کیا بنا دیکھ کے انتہائے عشق
عالم کائنات ہے مظہرِ ابتدائے عشق
عالمِ کائنات ہے مظہر انتہائے عشق
رونقِ بزمِ دہر ہے صورتِ ابتدائے عشق
زینتِ لا مکان ہے سیرت انتہائے عشق
آئینہ صفات ہے پر توِ ابتدائے عششق
جلوۂ عینِ ذات ہے مطلعِ انتہائے عشق
پہلے ادب کے ساتھ کر سجدۂ ابتدائے عشق
پھر بہ ہزار شوق دیکھ جلسہ انتہائے عشق
دل کو لگا کے دیکھ لے عالمِ ابتدائے عشق
دل میں سما کے دیکھ لے عالمِ انتہائے عشق
ذوق فنا چکھا دیا واہ رے ابتدائے عشق
رنگِ بقا چڑھا دیا واہ رے انتہائے عشق
سوچ سمجھ کے تھامنا دامن ابتدائے عشق
ہوش کے ساتھ اٹھائیو پردۂ انتہائے عشق
موت کا سامنا ہوا جب ہوئی ابتدائے عشق
لطف حیاتِ آگیا جب ہوئی انتہائے عشق
ہوش کو عقل آگئی دیکھ کے ابتدائے عشق
عقل کے ہوش اڑگئے دیکھ کے انتہائے عشق
شعلۂ طور بن گیا شعلۂ ابتدائے عشق
باغ خلیل بن گئی آتش انتہائے عشق
میری ہی ایک شان ہے شوخئ ابتدائے عشق
میرا ہی اک نشان ہے خوبئ انتہائے عشق
شیفتہ بن ہر ایک کا ہے یہی ابتدائے عشق
شیفتہ کر ہر ایک کو ہے یہی انتہائے عشق
دست بکار و دل بیار ہے یہی ابتدائے عشق
ہمہ اوست ہمہ از اوست ہے یہی انتہائے عشق
آنکھ ملا کے دیکھ لے ملت ابتدائے عشق
آنکھ اٹھا کے دیکھ لے رفعتِ انتہائے عشق
عقل و خرد سے ہے الگ کوچۂ ابتدائے عشق
وہم و گماں سے ہے پرے منزلِ انتہائے عشق
جانتے تھےولی کو ہم رہبر و ابتدائے عشق
آخر کار بن گیا رہبر انتہائے عشق
- کتاب : کلام ولی ولی الکلام (Pg. 103)
- Author : شاہ محمد ولی الرحمٰن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.