دیکھ کے حسنِ یار کو میرا جگرتڑپ اٹھا
دیکھ کے حسنِ یار کو میرا جگرتڑپ اٹھا
میرا جگر ہی کیا ہر اک فرد بشر تڑپ اٹھا
حسن کے راز و ناز سے عشق کے سوز و ساز سے
جان ادھر تڑپ اٹھی قلب ادھر تڑپ اٹھا
عشق کامبتلا ہر ایک درد سے آشنا ہر ایک
دیکھ کے میری حالتِ درد جگر تڑپ اٹھا
شب تو کسی کی زلف کی یاد میں چین سے کٹی
آیا کسی کا رخ جو یاد وقتِ سحر تڑپ اٹھا
عشق کے سوز و ساز کو نالۂ جاں گداز کو
میں تو ضبط کر لیا قلب مگر تڑپ اٹھا
حال مرا تھا گو خراب ضعف مجھے تھا بےحساب
آنے کی اس نگار کے سن کے خبر تڑپ اٹھا
شکر ہے آج تو مرے نالۂ جاں گداز نے
خوب اثر کیا کہ وہ رشکِ قمر تڑپ اٹھا
در پہ اگرچہ یار کے سیکڑوں جاں نثار تھے
میرا تڑپنا اس کو تھا مد نظر تڑپ اٹھا
کہتا ہے حالتِ جنوں یار سے پر میں کیا کروں
یار کے پائے ناز پر رکھتے ہی سر تڑپ اٹھا
دیکھ کے زلفِ یار کو لاکھوں کے بل نکل گئے
دیکھ کے کوئی یار کی پتلی کمر تڑپ اٹھا
مجھ سے نہ پوچھ اے ولی ؔ اب تو یہ جان بھی چلی
دیکھ کے حسن روئے یار میرا جگڑ تڑپ اٹھا
- کتاب : کلام ولی ولی الکلام (Pg. 183)
- Author : شاہ محمد ولی الرحمٰن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.