وہی دن تھے وہی راتیں وہی چرچے وہی باتیں
وہی دن تھے وہی راتیں وہی چرچے وہی باتیں
مگر ہر بات پر کچھ کچھ کمی محسوس ہوتی تھی
کبھی خود پرگذرتی تھی کبھی اوروں سے سنتے تھے
کبھی معلوم ہوتی تھی کبھی محسوس ہوتی تھی
پھڑک اٹھتا تھا یوں شوقِ زیارت ہر رگ وپے میں
عجب اک آگ سی دل میں لگی محسوس ہوتی تھی
بجائے خون کے گردش میں یوں جوشِ محبت تھا
کہ ہر ہر رگ میں کیفیت نئی محسوس ہوتی تھی
یہاں تک بڑھ گیا تھا اشتیاقِ آستاں بوسی
اقامت بھی یہاں کی عارضی محسوس ہوتی تھی
وفور شوق میں جی چاہتا تھا جان ہی دے دیں
مگر اس میں بھی اپنی بے بسی محسوس ہوتی تھی
رواں جو ایک ہی حالت میں تھے کہنے کو آنسو تھے
مگر ان آنسوؤں میں گدگدی محسوس ہوتی تھی
نگاہِ شوق میں منظر کھنچا تھا سبز گنبد کا
تڑپتی اس کے گرد اک برق سی محسوس ہوتی تھی
چلی آتی تھیں لپٹیں نکہت گلزار طیبہ کی
عجب اک آگ سی دل میں لگی محسوس ہوتی تھی
ادھر سے شوق وبےتابی کے تحفے پیش ہوتے تھے
اُدھر سے التفات ودل وہی محسوس ہوتی تھی
شمیم اتنا نہ گھبراؤ خدا پہنچائے گا تم کو
ندا یہ غیب سے آئی ہوئی محسوس ہوتی تھی
- کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلد دسویں (Pg. 155)
- Author : عرفان عباسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.