Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

خار حسرت دل میں لے کر اٹھے بزم یار سے

شمشاد لکھنوی

خار حسرت دل میں لے کر اٹھے بزم یار سے

شمشاد لکھنوی

MORE BYشمشاد لکھنوی

    خار حسرت دل میں لے کر اٹھے بزم یار سے

    یہ وہ کانٹے ہیں جنہیں لائے ہیں ہم گلزار سے

    ہائے اس کا یک بیک کہنا ادا سے پیار سے

    آج مجھ کو تم نظر آتے ہو کچھ بےزار سے

    ان کی آنکھوں میں ہیں انداز ادا مستی و ناز

    نقد دل ہم ہار بیٹھے ہیں انہیں دو چار سے

    کوئی اس کو سجدہ سمجھے یا علاج درد سر

    اب تو اٹھنے کا نہیں یہ آستانِ یار سے

    پڑگئے دل پر تمنائے ہم آغوشی میں داغ

    یا گرے ہیں پھول کچھ تیرے گلے کے ہار سے

    ہم کو زنداں سے جو وحشت سوئے صحرا لے چلی

    وقت رخصت مل کے ہم روئے در و دیوار سے

    ہائے کیا اندھیر ہے کیسی یہ چہرہ کی چمک

    سامنے تو سب کے پھر محروم سب دیدار سے

    والہ و دیوانہ و مجنوں و شیدا ہرزہ گرد

    یہ لقب مجھ کو ملے ہیں عشق کی سرکار سے

    وصل سے بھڑکاتے کیوں ہم آتش دل اور بھی

    کیا خبر تھی یہ مرض بڑھ جائے گا تیمار سے

    خلد میں جس کی مسیحائی کی قائل حور عین

    عشق ہے شمشادؔ کو اس نرگس بیمار سے

    مأخذ :
    • کتاب : Asli Guldasta-e-Qawwali (Pg. 7)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے