خار حسرت دل میں لے کر اٹھے بزم یار سے
یہ وہ کانٹے ہیں جنہیں لائے ہیں ہم گلزار سے
ہائے اس کا یک بیک کہنا ادا سے پیار سے
آج مجھ کو تم نظر آتے ہو کچھ بےزار سے
ان کی آنکھوں میں ہیں انداز ادا مستی و ناز
نقد دل ہم ہار بیٹھے ہیں انہیں دو چار سے
کوئی اس کو سجدہ سمجھے یا علاج درد سر
اب تو اٹھنے کا نہیں یہ آستانِ یار سے
پڑگئے دل پر تمنائے ہم آغوشی میں داغ
یا گرے ہیں پھول کچھ تیرے گلے کے ہار سے
ہم کو زنداں سے جو وحشت سوئے صحرا لے چلی
وقت رخصت مل کے ہم روئے در و دیوار سے
ہائے کیا اندھیر ہے کیسی یہ چہرہ کی چمک
سامنے تو سب کے پھر محروم سب دیدار سے
والہ و دیوانہ و مجنوں و شیدا ہرزہ گرد
یہ لقب مجھ کو ملے ہیں عشق کی سرکار سے
وصل سے بھڑکاتے کیوں ہم آتش دل اور بھی
کیا خبر تھی یہ مرض بڑھ جائے گا تیمار سے
خلد میں جس کی مسیحائی کی قائل حور عین
عشق ہے شمشادؔ کو اس نرگس بیمار سے
مأخذ :
- کتاب : Asli Guldasta-e-Qawwali (Pg. 7)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.