کیا بتاؤں کہ کہاں ہیں وہ ستانے والے
دل میں رہتے ہیں مرے دل کے جلانے والے
روح میں اپنی ترے کوچہ میں رہے گی پسِ مرگ
اور ہی لوگ ہیں وہ خلد کے جانے والے
چشمِ امید رقیبوں نے کسی ہے اے دل
اور یہ آگ میں ہیں آگ لگانے والے
کیوں نہ بدظن ہوں وہ ہم سے جو زمانہ بھڑکائے
قہر کر دیتے ہیں دو چار لگانے والے
میں جو لیتا ہوں بلائیں تو وہ فرماتے ہیں
کہیں غارت نہیں ہوتے یہ ستانے والے
وعدۂ وصل ہزاروں ہی کئے اور مکرے
ادھر آؤ میرے باتوں کے بنانے والے
برسوں ہی گذرے مگر ہم سے تکلف نہ گیا
رنگ دو دن میں جماتے ہیں جمانے والے
روکے فرماتے ہیں وہ شب کو جو ہم یاد آئے
گوشۂ قبر میں سوتے ہیں جگانے والے
دیکھتے حسن و جمال آج تمہارا صاحب
نہ ہوئے کیا کہیں یوسف کے زمانے والے
اس زمیں میں تمہیں شیریںؔ نہ غزل کہنا تھا
کہہ گئے خوب اجی اگلے زمانے والے
مأخذ :
- کتاب : Naghma-e-Sheeri'n (Pg. 6)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.