ہے مریض ہجر مرنے کو شفا سمجھے ہوئے
Page-116
ہے مریض ہجر مرنے کو شفا سمجھے ہوئے
تیری آبِ تیغ کو آبِ بقا سمجھے ہوئے
بیخودی کو درد دل کی ہو ں دوا سمجھے ہوئے
مانگتا ہوں میں فنا حق سے شفا سمجھے ہوئے
رنج کے خوگر ہیں وہ ان کو بلا میں عیش ہے
جو کہ دنیا کو ہیں دار ابتلا سمجھے ہوئے
دل مرا شیشہ ہے نازک ترکف پا آپ کے
پاؤں تربت پر مری رکھنا ذرا سمجھے ہوئے
موت سے ڈرتے ہیں کب ہم ہے یہ اپنی آرزو
کوسنے کو آپ کے ہیں ہم دعا سمجھے ہوئے
خاک جب ڈالی دہان گور سے نکلی صدا
تھے وہ بیگانہ جنہیں تھے آشنا سمجھے ہوئے
بت خیالات اپنے ہیں بت خانہ ہے اپنا گماں
وہ نہیں ہے وہ جسے ہیں ہم خدا سمجھے ہوئے
صحبتِ پیر مغاں میں شب کھلا مجھ پر یہ راز
ہیں وہ اچھےجو ہیں اپنے کو بُرا سمجھے ہوئے
ان سے میں لپٹا تھا بے ڈھب لاغری تھی پردہ پوش
میرے ہاتھوں کو وہ تھے بندقبا سمجھے ہوئے
چاہتا ہوں جب کہوں کچھ حال دل کہتے ہیں وہ
ہم ہیں مدت سے تمہارا مدعا سمجھے ہوئے
میرے نالوں پر وہ خوش ہو ہو کے فرماتے تھے رات
ہم ہیں ان کو عندلیب خوشنوا سمجھے ہوئے
پان کھا کر آئے ہیں وہ قتل کرنے کو مرے
مسکرا دینے کو میرا خوں بہا سمجھے ہوئے
مروحہ جنباں ہے تیرے بیخودوں کو صبح حشر
ہیں یہ نفخِ صور کو ٹھنڈی ہوا سمجھے ہوئے
کام جوئی عیب ہے ورنہ دکھادوں جذب عشق
حسن پر اپنے ہو تم مغرور کیا سمجھے ہوئے
دل میں اس کو ڈھونڈتے ہیں کر کے ہم قطع نظر
نیستی کو رہ کشش کو رہنما سمجھے ہوئے
ہاتھ آجائے جو میرے پھر تو ہوں میں بادشاہ
ہوں تری انگیا کی چڑیا کو ہما سمجھے ہوئے
مجھ کو اس مصرع پہ صوفیؔ بوالہوس کہتے ہیں وہ
ہے مریض عشق مرنے کو شفا سمجھے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.