عاشق ہوں میں تو اس صنم بےعدیل کا
عاشق ہوں میں تو اس صنم بےعدیل کا
بتخانہ میں جو راہ نما تھا خلیل کا
عالم تمام آینہ خانہ اسی کا ہے
پر تو فگن جمال ہے میرے جمیل کا
جلوہ دکھا کے طور کو سر مہ بنا دیا
منظور تھا کہ عشق ہو چشم کحیل کا
پھونکا فراق نے مجھے اس بے نیاز کے
ہر داغ دل بنا ہے گلستاں خلیل کا
گلگونہ رخ شفق آسماں ہوا
خون تک گرا زمیں پہ نہ تیرے قتیل کا
میں خود نہیں شمار میں اپنے تو پھر تجھے
کیا دوں حساب جرم کثیر و قلیل کا
تجھ پر جو پس گیا ہے اسی کا ہوں مبتلا
شیدا نہیں ہوں میں کسی چشم کحیل ککا
تیری نگاہ لطف رہے خاکسار پر
کچھ بس چلا نہ مجھ پہ سپہر محیل کا
منعم کبھی نہ کعبۂ دل کو گرائے تو
قصہ جو یاد ہو تجھے اصحاب فیل کا
عاشق ہوں مجھ کو شربت دیدار دیجئے
پیا سا نہیں ہوں آپ کی میں سلسبیل کا
جاتا ہے میرا طائر وہم و خیال واں
جس جا گذر ہوا نہ کبھی جبرئیل کا
کیا دخل کوئی راز جو اس بت کا پا سکے
عاجز یہاں ہے ذہن رسا ہر عقیل کا
زاہد تجھے غرور ہے خیرِ کثیر پر
ناداں وہ مشتری ہے متاع قلیل کا
اللہ تیرے وصف بیاں مجھ سے ہو سکیں
کیا حوصلہ ہے عبد حقیر و ذلیل کا
ہر ایک تیرے فضل کا محتاج ہے کہ تو
حافظ ہے تندرست کا شافی علیل کا
پھر ہو رہیں گی راز کی باتیں مگر ابھی
موقع نہیں ہے یار سے کچھ قال و قیل کا
- کتاب : دیوان سخن دہلوی (Pg. 48)
- Author : سخن دہلوی
- مطبع : منشی نول کشور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.