مرا سینہ تجلی گاہ ہے انوار یزداں کا
مرا سینہ تجلی گاہ ہے انوار یزداں کا
فروغ داغ دل خورشید ہے گردون عرفاں کا
بہار خلد اک کانٹا جنوں ہیں میرے داماں کا
فضائے لا مکاں گوشہ مرے چاک گریباں کا
دیا تو نے مجھے اپنے کرم سے نور ایماں کا
کروں میں کس زباں سے شکر یا رب ترے احساں کا
خیالِ کوچۂ جاناں پئے تفریح کیا کم ہے
کہ ناحق تذکرہ کرتے رہیں گلزار رضواں کا
زیادہ مہر و مہ سے اب تو ہےآفاق میں شہرہ
ہمارے داغ دل کا اور تمہارے روئے تاباں کا
نہ منھ کھلواؤ سب کے سامنے جانے دو کیا حاصل
سبب تم جانتے ہو میری رنجشہائے پنہاں کا
نقابِ رخ اٹھا دو ہائے تم کیسے مسیحا ہو
مداوا کچھ تمہیں آتا نہیں بیمار ہجراں کا
رخ رنگیں سے حاصل کیوں نہ ہو کیفیت گلشن
تمہاری زلف اگر دکھلائے عالم سنبلستاں کا
کبھی گر نیند آتی ہے یکایک چونک پڑتا ہوں میں
ہوا ہے کس قدر سودا تیری زلف پریشاں کا
کبھی دکھلایئے آکر ہمیں اپنا رخ و گیسو
کھلے تا حال کچھ صبح وطن شامِ غریباں کا
کہیں ہوتا ہوں لیکن روز ان کے گھر پہ جاتا ہوں
ادب سے روکنا لذت فزا ہے ان کے درباں کا
شب غم انتظار یار میں آساں گذرتی ہے
ولے دشوار ہوتا ہے گذرنا روز ہجراں کا
سخن ملک سخن میں شاہ معنیٰ نے کیا جلوہ
ہوا موزوں لقب دیوان خاص اب اپنے دیواں کا
- کتاب : دیوان سخن دہلوی (Pg. 50)
- Author : سخن دہلوی
- مطبع : منشی نول کشور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.