چلےگی گر تری تیغ ستم آہستہ آہستہ
چلےگی گر تری تیغ ستم آہستہ آہستہ
سسک کر ہم بھی دیں گے اپنا دم آہستہ آہستہ
کیا ہے ضعف میں نامہ رقم آہستہ آہستہ
تو قاصد کا بھی اٹھتا ہے قدم آہستہ آہستہ
خبر کیا پوچھتے ہو سالکان راہ الفت کی
گئے وہ لوگ سب سوے عدم آہستہ آہستہ
اگر تم چاہتے ہو میں نہ بسمل ہوں تہِ خنجر
تو پھر چلتی ہے کیوں تیغ ِدو دم آہستہ آہستہ
نہیں بچتا کبھی مارا ہو اس زلف پیچاں کا
اثر کرتا ہے اس افعی کا سم آہستہ آہستہ
شہِ اقلیم و صحرا ہوں ہوا کھانے نکلتا ہوں
جنوں کے ساتھ رکھتا ہوں قدم آہستہ آہستہ
اکڑ کر کیوں نکلتے ہو غرور کبر و نخوت سے
زمین پر غافلو رکھو قدم آہستہ آہستہ
نہ بل کھائے کمر بار نزاکت سے کہیں دیکھو
زمیں پر ناز سے رکھو قدم آہستہ آہستہ
قریب ان سے کریں گے جان دیں گے ان پہ غش کھا کر
انھیں یاں لائیں گے ہم دے کے دم آہستہ آہستہ
اثر ہے یہ مرے مضمون ضعف و ناتوانی کا
کہ پڑھتا ہے مرے خط کو صنم آہستہ آہستہ
نہیں شکوہ فقط تیرے سوا تیرے بھی او ظالم
بہت سے ہوگئے ہم پر ستم آہستہ آہستہ
اگر یونہیں رہیں اے میکش و واعظ کی بوچھاریں
تو مٹ جائے گا نام جام جم آہستہ آہستہ
حسیں کو دیکھ کر کوچوں میں یہ معمول ہے اپنا
کہ پیچھے اس کے ہولیتے ہیں ہم آہستہ آہستہ
دباتا ہوں شب وصلت جو ان کے پاؤں کہتے ہیں
سخن ؔتجھ کو مرے سر کی قسم آہستہ آہستہ
- کتاب : دیوان سخن دہلوی (Pg. 177)
- Author : سخن دہلوی
- مطبع : منشی نول کشور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.