حالت ہے وہی شام سے پھر درد جگر کی
حالت ہے وہی شام سے پھر درد جگر کی
امید نہیں آج تو ہم کو بھی سحر کی
اللہ رے نزاکت کہ دم بندش مضموں
تارِ رگِ اندیشہ ہے تشبیہ کمر کی
پیغام اجل تھی خلش جنبش منقار
بسمل ہوئے سنتے ہی اذاں مرغ سحر کی
لیجائے نہ پیغام نہ بو زلف کی لائے
اے باد صبا تو نہ ادھر کی نہ ادھر کی
اے موج ہوا خوب نکالیں گے ترا بل
وہ زلف اگر بال برابر کہیں سر کی
مانا کہ وہ کل صبح کو پھر آئیں گے لیکن
امید کسے ہے شب فرقت میں سحر کی
جب ہاتھ وہ رکھتے ہیں سنبھل جاتے ہیں دونوں
حالت انھیں دکھلایئے کیا قلب و جگر کی
الماس ہیں یہ بہر جگر کا وی عشاق
تشبیہ ہے بیجا ترے دانتوں سے گہر کی
خاموشی لب میں بھی تکلم کا مزا ہے
کیا بات ہے واللہ بت رشک قمر کی
مدفن ہو مرا کوچۂ جاناں میں عزیزو
مر کر بھی تمنا ہے اسی راہ گذر کی
ہر برگ شجر وجد میں ہے گل ہیں شگفتہ
کیا زمزمہ پردازی ہے عرفان سحر کی
افسوس دم مرگ رہی حسرت دیدار
آئے وہ مگر ان کو کسی نے نہ خبر کی
سچ ہے یہ سخن ؔمصرع بر جسہک شاعر
پتھر میں بھی ہوجاتی ہے تاثیر نظر کی
- کتاب : دیوان سخن دہلوی (Pg. 188)
- Author : سخن دہلوی
- مطبع : منشی نول کشور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.