Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

چمن میں کس کی آمد ہے صبا جو روح پرور ہے

سخن دہلوی

چمن میں کس کی آمد ہے صبا جو روح پرور ہے

سخن دہلوی

MORE BYسخن دہلوی

    چمن میں کس کی آمد ہے صبا جو روح پرور ہے

    شمیم نکہت گل سے دماغ جاں معطر ہے

    قلق ہے درد ہے رنج والم ہے ہجر دلبر ہے

    نیا اک روز صدمہ الفت جاناں میں دلبر ہے

    متاع جاں یہاں غرق سر شک دیدۂ تر ہے

    تری برق تبسم خرمنِ جان عدو پر ہے

    مداوا کیا کرے کوئی دل بیتاب کا میرے

    کہ جودلسوز ہے میرا زیادہ مجھ سے مضطر ہے

    حقیقت جس سے کہتا ہوں میں وہ کہتا ہے گھبرا کر

    ترا افسانۂ غم بے تکلف اک دفتر ہے

    کسی کو بیوفا الفت پہ تیری کیا بھروسا ہو

    عنایت مہربانی لطف جو کچھ ہے وہ دم بھر ہے

    کوئی سیکھے اگر جادو تو اس کی آنکھ سے سیکھے

    سبق آموز سحر سامری چشم فسونگر ہے

    یہ مجھ سے بیکسی کہتی ہے میرے دل کے جانے پر

    ابھی روتے ہو کیا اس کا تو رونا زندگی بھر ہے

    خیال اس کا رہے ہر دم کہ لگ جائے نہ ٹھیس اس کو

    تیرا مینائے مے ساقی مجھے دل کے برابر ہے

    حساب جرم الفت میں عذاب ہجر جاناں میں

    شب فرقت ہماری روز محشر کے برابر ہے

    مزا ملتا ہے خوب ان کے لب شیریں کے بوسوں میں

    اور اس پر گالیوں سے لذت قند مکرر ہے

    ترقی کی وہ حسن جانستاں نے اس کے عالم میں

    کہ وہ ظالم بھی ہے تو ظالموں میں سب سے بڑھ کر ہے

    جفائیں لاکھ ہوں لیکن حضور داورِ محشر

    شکایت اور تمہاری میں کروں یہ تم کو باور ہے

    تعجب کیا جو میں جوش جنوں میں خون روتا ہوں

    کہ یادِ جنبش مژگان قاتل مجھ کو نشتر ہے

    مزا بتلائیں کیا اے خضر تم کو مرگ الفت کا

    رہے تم یوں ہی یہ لذت کہاں تم کو میسر ہے

    بجا ہے تجھ کو اے جان جہاں دعوائے یکتائی

    زمانے میں نہ ہوگا کوئی جیسا تو ستمگر ہے

    تڑپ کر ہمدمو !کل رات بھر رویا ہوں فرقت میں

    برنگِ موج دریا ہر شکن بالائے بستر ہے

    وفا اور جور میں ہم اور تم دونوں ہی نامی ہیں

    نہ مجھ سا اب ستمکش ہے نہ تم سا اب ستمگر ہے

    نہ ہوتے کاش صورت آشنا ہم اس ستمگرسے

    سنا ہے غیر کی باتوں کے سننے کا وہ خوگر ہے

    غضب ہے یہ مجھے وہ راز دار اپنا سمجھتے ہیں

    شکایت غیر کی مجھ سے زبان پر ان کی شب بھر ہے

    رہےگا یاد کیونکر شکوۂ جور و ستم اس کا

    خدا جانے کہ مرنے پر ہے یا کب روز محشر ہے

    نہیں موقوف آئینہ پہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں

    جسےتو دیکھ لے وہ وقت کا اپنے سکندر ہے

    سنا ہے بعد رنجش عشق میں ملتی ہے آسائش

    خفا ہو کر ذرا تم ہم سے مل جاؤ تو بہتر ہے

    لگادی آگ اس کافر نے میرے خرمنِ جاں میں

    ذرا سا پر تو برقِ نگاہِ یار دل پر ہے

    ترے ضبط فغاں نے اے سخنؔ رسوا کیا تجھ کو

    برا گر آہ و نالہ تھا خموشی اس سے بد تر ہے

    مأخذ :
    • کتاب : دیوان سخن دہلوی (Pg. 214)
    • Author : سخن دہلوی
    • مطبع : منشی نول کشور

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے