ساتھ غیروں کے مرا رشک قمر آ ہی گیا
ساتھ غیروں کے مرا رشک قمر آ ہی گیا
عید کا چاند تھا بدلی میں نظر آہی گیا
بے سبب میں بھی رقیبوں سے الجھ پڑتا ہوں
مجھ میں اے جان تری شوخی کا اثر آہی گیا
تیر تو آپ نے مارا تھا عدو کو لیکن
کشش دل سے ہماری وہ ادھر آہی گیا
بزم میں غیروں نے کیا کچھ نہ اسے بہکایا
پھر خیال اس کو ہمارا بھی مگر آہی گیا
شام سے ضبط کیے تھا نکل آئے آنسو
یاد جانا ترا ہنگام سحر آ ہی گیا
کردیا تم سے جدا تفرقہ پردازوں نے
جو مقدر تھا وہ اے یار نظر آہی گیا
ہوگئے دشمنِ جاں تم بھی ہمارے افسوس
صحبت غیر کا آخر کو اثر آ ہی گیا
لاکھ پردوں میں رہا یاروہ لیکن ہم نے
دیکھا جب دل کی نگاہوں سے نظر آہی گیا
اب ہے بے فائدہ تکلیف کا دینا تجھ کو
قاصد اس گل کی صبا لے کے خبر آہی گیا
ہائے رے حب وطن راہ زنی کی تونے
یاد غربت میں بھی اپنا مجھے گھر آہی گیا
امتحاں غیر کا اس کو جو ہوا مد نظر
سامنے لے کے میں شمشیر و سپر آ ہی گیا
چھیڑنا تھا انھیں منظور جو محفل میں سخن ؔ
جس جگہ بیٹھے تھے وہ میں بھی ادھر آ ہی گیا
- کتاب : دیوان سخن دہلوی (Pg. 66)
- Author : سخن دہلوی
- مطبع : منشی نول کشور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.