نہ کار دنیا کے ہوں میں قابل نہ کام ہوتا ہے مجھ سے دیں کا
نہ کار دنیا کے ہوں میں قابل نہ کام ہوتا ہے مجھ سے دیں کا
تمہاری الفت میں اے پری رو رہا نہ میں مبتلا کہیں کا
تم اپنے گھر سے نہیں نکلتے یہاں محبت سے کی ہے توبہ
تمھیں اگر ہے خیال عصمت ہمیں بھی ہے پاس اپنے دیں کا
کوئی ہے پہلے سے پا بجولاں کسی کو پھنسنے کی آرزو ہے
ترقیوں پر ہے اب تو سودا تمہارے گیسوے عنبریں کا
تمہارا عاشق کرے گا نالے تو جان ہوجائے گی قیامت
نشاں رہےگا نہ آسماں کا پتا لگے گا نہ پھر زمیں کا
بوقت آخر لگے جو ملنے ہمارے منھ سے دہن کو اپنے
تو اشک چشم صنم جو ٹپکے مزا ملا مجھ کو انگبیں کا
حرم میں اور بتکدے میں ہر جا نظر مجھے آیا تیرا جلوا
پھرا وہاں سے نہ تیرا عاشق جہاں گیا ہو رہا وہیں کا
یہ کیا ہے اے گلعذار رعنا کھڑے کھڑے آئے اور چلے تم
ہوئی نہ توفیق تم کو اتنی کہ حال پوچھو دل حزیں کا
کشش تو دیکھو یہ میرے دل کی مجھے بھی تکلیف دی نہ اس نے
سنا کے لے آیا ان کو گھر میں اٹھایا احساں نہ ہمنشیں کا
کلام میرے میں معترض کو جگہ ملی کچھ نہ گفتگو کی
زبان لکنت سے لڑکھڑائی ہوا جو دم بند نکتہ چیں کا
سخنؔ ابھی کیا ہوا ہے دیکھو ابھی تو الفت کی ابتدا ہے
بہت سا رسوا کرے گا تم کو یہ عشق خوبان نازنیں کا
- کتاب : دیوان سخن دہلوی (Pg. 75)
- Author : سخن دہلوی
- مطبع : منشی نول کشور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.