شراب عشق کے مخمور کو سرشار کہتے ہیں
شراب عشق کے مخمور کو سرشار کہتے ہیں
کسی کا ہو جودیوانہ اسےہشیار کہتے ہیں
دہن غنچہ ہے آنکھیں نرگس شہلا ہیں اے گلرو
تمہارے چہرۂ رنگیں کو ہم گلزار کہتے ہیں
بمجبوری تمہاری ہاں میں ہاں ہم بھی ملاتے ہیں
نہیں کہنے کی جو باتیں ہیں وہ نار چار کہتے ہیں
جنوں یوں تو پڑے رہتے ہیں صحرا میں بہت تنکے
چبھے جو پاؤں میں کانٹا اسی کو خار کہتے ہیں
شرار و سوز و آہ و نالہ و افغان و بے تابی
شبِ فرقت میں ان کو کو کبِ سیار کہتے ہیں
یہ کس گلرو کے شوق دید میں حالت ہوئی تیری
کہ سب اے نرگسِ شہلا تجھے بیمار کہتے ہیں
چلے ہیں ہم زبانی ان سے اپنا حال دل کہنے
ولیکن دیکھیے کیا جا کے پیش یار کہتے ہیں
یہ ضد کیسی ہے مجھ سے بات بھی سنتے نہیں میری
وہی کرتے ہو صاحب جو تمہیں اغیار کہتے ہیں
نہ جاؤ بیٹھ جاؤ ایک دو باتیں مری سن لو
ذرا کہنا ہمارا مان لو اے یار کہتے ہیں
سخن ؔکچھ قدر شاعر کی نہیں ہے اس زمانے میں
ہنسے جاتے ہیں اب وہ لوگ جو اشعار کہتے ہیں
- کتاب : دیوان سخن دہلوی (Pg. 140)
- Author : سخن دہلوی
- مطبع : منشی نول کشور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.