درد جگر نہیں مجھے کچھ درد سر نہیں
درد جگر نہیں مجھے کچھ درد سر نہیں
وہ درد ہے کہ جس کی دوا چارہ گر نہیں
وہ دل نہیں وہ جاں نہیں وہ جگر نہیں
پہلو میں میرے آج جو وہ سیمبر نہیں
ہے محو یا کہ قتل ہوا کچھ خبر نہیں
یا نامہ بر کا میرے وہاں تک گذر نہیں
اس بے وفا پہ ہم نے کیا اپنا دل نثار
جس کو ہمارے حال کی مطلق خبر نہیں
اب تو ہمارا حال یہ ہے ہجر یار میں
گر شام ہوگئی تو امید سحر نہیں
اچھا ہوا لیا جو مرے دل کو آپ نے
لیکن غضب یہ ہے کہ پھر اس پر نظر نہیں
اپنی شب فراق ہے آفت وگر نہ یاں
وہ کون سی ہے رات کہ جس کی سحر نہیں
ہر روز ان کے ظلم ہیں مجھ پر نئے نئے
کیونکر کہوں کہ یار کو مجھ پر نظر نہیں
گھر سے گیا رقیب سیہ رو ہزار شکر
عقرب میں آج تو مرا رشک قمر نہیں
دے نفع ہر کسی کو جو مقدور ہے تجھے
بیکار وہ شجر ہے کہ جس میں ثمر نہیں
ضد آ پڑی ہے مجھ سے یہاں تک تو اب اسے
ہر سو نگاہ ہے مری جانب مگر نہیں
میں کیا ہوں اورکون ہوں جا تا ہوں کس طرف
اس بزم سے نکل کے مجھے کچھ خبر نہیں
دل لے گیا ہے چھین کے اک شوخ بےحجاب
جوشِ شباب سے جسے اپنی خبر نہیں
زیب بدن ہے ہائے وہ پوشاک چمپئی
آنچل فقط ہے دوش پہ بالائے سر نہیں
دکھلائے کیوں نہ وہ رخ پر نور د مبدم
جس کی مثال دہر میں شمس و قمر نہیں
رفتار میں قیامت صغریٰ ہے آشکار
اٹکھیلیوں کی چال پہ کچھ منحصر نہیں
دم بھر میں شوخیوں سے کبھی یاں کبھی وہاں
دیکھا ابھی ادھر ابھی دیکھا ادھر نہیں
بے چین اس قدر کہ کسی جا نہیں قرار
بے رحم اس قدر کہ کسی پر نظر نہیں
شکوہ غم فراق کا بیکار ہے سخنؔ
خالی جہاں میں رنج سے کوئی بشر نہیں
- کتاب : دیوان سخن دہلوی (Pg. 154)
- Author : سخن دہلوی
- مطبع : منشی نول کشور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.