حاصل کائنات ہیں اجڑے ہوئے دریا کے
حاصل کائنات ہیں اجڑے ہوئے دریا کے
شمع مرے مزار کی پھول مرے مزار کے
ختم ہوئے کسی طرح مرحلے انتظار کے
آج خموش ہوگیا کوئی انہیں پکار کے
اس سے زیادہ اور کیا ہوں گی بلا نصیبیاں
جب مرا آشیاں جلا دن تھے بھری بہار کے
ملکِ عدم کے ساکنو ہم سے تو حالِ دل کہو
ہم بھی اسی دیار کے تم بھی اسی دیار کے
دست جنوں کے حوصلے مجھ کو نکالنے ہیں پھر
جوڑ رہاہوں تار تار دامن تار تار کے
قدرِ وفا کے میں فدا شرم جفا کے میں نثار
بیٹھے ہوئے ہیں وہ اداس پاس مرے مزار کے
تونے یہ کیا ستم کیا مجھ سے چمن چھڑا دیا
آج ہی کل تو باغباں دن تھے بھری بہار کے
حسن نظارہ سوزہے تاب نظارہ دے گا کیا
خیرہ کیے ہیں چشم شوق جلوے حجاب یار کے
کیوں نہ ہو میری موت پر رشک مری حیات کو
آئے وہ لے کے شمع وگل پھر گئے دن بہار کے
کالی گھٹا کے ساتھ ہی جام بکف اٹھا کوئی
نکلیں گے اب تو حوصلے قدسی مئے گسار کے
- کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلد دسویں (Pg. 248)
- Author : عرفان عباسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.