کیوں کر نہ لطف و رحم ہو اغیار کے لئے
کیوں کر نہ لطف و رحم ہو اغیار کے لئے
پیدا ہوئے ہیں ہم جو آزار کے لئے
جس کو ہو جاں عزیز وہ مونس بنا رہے
ہم کو ملے تو جان دیں زنار کے لئے
اک وہ کہ بحر نور میں غوطہ زنی کریں
اک ہم کہ جل رہے ہیں کسی نار کے لئے
انساں کے اک نفس سے ہے عالم کا کُل وجود
رشتے ہزار جوڑے ہیں اک تار کے لئے
وہ خاک دل ہے جس میں نہ ہو فکر وصل یار
پیدائش قلوب ہے افکار کے لئے
باغِ حیات عشق کے ہاتھوں ہوا تباہ
گلشن پہ خاک ڈال دی اک خار کے لئے
زندہ ہوں اس امید پہ مر جاؤں پیشِ یار
جاں مضطرب ہے یار کی تلوار کے لئے
آجا دکھا دے چہرۂ روشن کی اک جھلک
آنکھیں ترس گئیں ترے دیدار کے لئے
خوابیدہ چشم یار سے ہے دور اے وجیہؔ
ہے لطف وصل دیدۂ بیدار کے لئے
- کتاب : دیوان وجیہ (Pg. 137)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.