پنجۂ خورشید کا ہمسر بنے اور ٹوٹ جائے
پنجۂ خورشید کا ہمسر بنے اور ٹوٹ جائے
کاسہ سرکا مرے ساغر بنے اور ٹوٹ جائے
دل جسے کہتے ہیں صوفی ہم سر عرش بریں
ہائے ایسا گبند بے در بنے اور ٹوٹ جائے
یہ طلسم ِ جسم انساں یوں شکست ہوجائے گا
جس طرح مٹی کا کوئی گھر بنے اور ٹوٹ جائے
عالمِ فانی میں مٹی کے گھروندے کی طرح
کیا تماشا ہے خدا کا گھر بنے اور ٹوٹ جائے
یوں جہاں مٹ جائے گا جیسے فلک پر رات کو
چاند اور تاروں کا اک لشکر بنے اور ٹوٹ جائے
میں تو یہ سودا کروں سر ان کے قدموں پر نثار
اور انہیں منظور یہ خنجر بنے اور ٹوٹ جائے
جس نے خود بینی سکھائی آئینہ بن کر تجھے
ہائے وہ دل ترا سنگ در بنے اور ٹوٹ جائے
دل مرا ٹکڑا ہے ایک یاقوت کا ترشا ہوا
وہ تری پیشانی کا جھومر بنے اور ٹوٹ جائے
ہے رسائی تجھے اپنی نارسائی کا گلہ
گوہر جاں کا مری جھومر بنے اور ٹوٹ جائے
یہ وفاؔ دل کی کلی فرط طرب سے پھول کر
اُف کسی گل کے لئے ساغر بنے اور ٹوٹ جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.