ہاتھ میں آکر بھی چھن جاتے ہیں جام
ہاتھ میں آکر بھی چھن جاتے ہیں جام
بنتےبنتے بھی بگڑ جاتے ہیں کام
میکدے میں کون آیا تشنہ کام
خود بخود کیسے چھلک اٹھے ہیں جام
کاش ہوتا اپنا بادہ اپنا جام
پھر نہ ہوتا ہجر کی راتوں کا نام!
ہم تو ایسی زندگی سے باز آئے
زندگی ہے گر اسی جینے کا نام
عشق میں خودداریاں چلتی نہیں
کچھ سمجھ سے بھی لیا کرتے ہیں کام!
شوق سے مرنے کو جی چاہا جہاں
زندگی میں وہ بھی آئے ہیں مقام
حسن ہے بننے سنورنے کی امنگ
عشق ہے خاموش مٹ جانے کا نام
اب نہ آئے زندگی میں وہ گھڑی
جب چھلک اٹھے تھے ان آنکھوں کے جام
میکشوں کی جرأتیں دیکھی نہیں
آپ ہی بڑھ کر اٹھالیتے ہیں جام
وہ جنوں کا دور بھی ہے یادگار
میں نہ سمجھا ان نگاہوں کے پیام
بت پرستی، مئے کشی آوارگی
اور کیا ہے وجدؔ ہم رندوں کا کام
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.