لاکھوں پردوں کے اندر چھپا ہے
لاکھوں پردوں کے اندر چھپا ہے
خوب دیکھا تو پھر جابجا ہے
کچھ عجب رنگ اس یار کا ہے
سب میں ہے اور سب سے جدا ہے
نحن اقرب اسی نے کہا ہے
کس کو تو ڈھونڈتا پھر رہا ہے
ابتدا وہ وہی انتہا ہے
ایک نکتہ کا سب دائرہ ہے
تیری ہستی کی ہستی ہی کیا ہے
تیر ہستی پہ ہنسنا بجا ہے
منہ سے غفلت کا برقعہ ہٹا دے
آئینہ دیکھ وہ برملا ہے
اس کے ہر شئے میں لاکھوں ہیں جلوے
ایک قطرے میں دریا بھرا ہے
اس کی بادامی آنکھوں کے قربان
جس نے بے دام دل لے لیا ہے
سارا عالم نمایاں ہے اس سے
تیری صورت ہی خود آئینہ ہے
مظہر ذات ہے ذات تیری
عین دریا یہی بلبلا ہے
شکل حاذقؔ پہ دھوکا نہ کھانا
وہ تو مکار بہروپیا ہے
- کتاب : انوارِ غیب (Pg. 77)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.