کبھی امیدوار ماں اپنے سینے میں مچلتے ہیں
کبھی امیدوار ماں اپنے سینے میں مچلتے ہیں
کبھی تو یاس و حرماں ہجر میں دل کو مسلتے ہیں
اسی امید پر ہم بھی درِ دل پر ٹہلتے ہیں
کہ صورت کب دکھاتے ہیں وہ کب باہر نکلتے ہیں
خیال اچھا بنایا ہے کہ سب دنیا خیالی ہے
دکن میں بیٹھ کر آنکھوں سے ہم جالی کو ملتے ہیں
لے آنا وصل کا بشریٰ مدینہ کو صبا جا کر
تپ ہجر نبی سے دل جگر بس اپنے جلتے ہیں
صدا صلی علیٰ کی ہر بن مو سے نکلتی ہے
نبی کی مدح میں اشعار کیا سانچے میں ڈھلتے ہیں
ملے گر قافلہ جاتا ہوا کوئی مدینہ کو
دل بیتاب کہہ دینا کہ ہم بھی ساتھ چلتے ہیں
ڈراتا کیا ہے اے واعظ تو کہہ کہہ سیصلیھم
رسول اللہ کے عاشق کہیں دوزخ میں جلتے ہیں
کرشمہ عشق کا دیکھو نکالا آگ سے پانی
جو دل جلتا ہے اپنا آنکھ سے آنسو نکلتے ہیں
عنایت سے محبت سے مروت سے شفقت سے
وہ کس انداز سے دیکھو مرے دل کو مسلتے ہیں
یہ کہتے ہیں کہ محشر میں تجھے کوثر عطا ہوگا
غمِ حسنین میں آنسو جو آنکھو سے نکلتے ہیں
میاں حاذقؔ بڑی مشکل ہے راہ عشق میں چلنا
جواں مردان عالم کے قدم اس میں پھسلتے ہیں
- کتاب : انوارِ غیب (Pg. 40)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.