لطف کا کوئی کرشمہ وہ دکھاتے بھی نہیں
لطف کا کوئی کرشمہ وہ دکھاتے بھی نہیں
اور ستاتے ہیں زیادہ کہ ستاتے بھی نہیں
زندگی کا کوئی پیغام سناتے بھی نہیں
کاہش درد تو کیا درد بڑھاتے بھی نہیں
حضرت دل کی خموشی کہ طلسم حیرت
حال کہتے بھی نہیں حال چھپاتے بھی نہیں
ہائے کیا کشمکش افزاہے امید موہوم
جان جاتی بھی نہیں اور وہ آتے بھی نہیں
میری برگشتہ نصیبی سے گلہ بھی ان کو
اور بگڑی ہوئی تقدیر بناتے بھی نہیں
یہ بھی روشن ہے کہ ہر ذرہ ترا آئینہ
اور ترے ڈھونڈنے والے تجھے پاتے بھی نہیں
جو انہیں درد کی تسکیں کا گماں ہوتا ہے
ضد سے پھر موت کا پیغام سناتے بھی نہیں
مرنے والوں کو خطا کار وفا کہتے ہیں
زندگی کی کوئی تدبیر بتاتے بھی نہیں
جعد مشکیں سے تو کرتے ہیں مداوائے غشی
یاسؔ ہشیار مگر ہوش میں آتے بھی نہیں
- کتاب : ماہ عید (Pg. 66)
- Author : سید احمد انور
- مطبع : مطبع اتحاد، بہار (1924)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.