صنعتِ نقاشی میں چینیوں اور رومیوں کا مقابلہ۔ دفتراول
چینیوں کو اپنی نقاشی پر گھمنڈ تھا اور رومیوں کو اپنے کمال کا غرّہ۔ سلطان نے حکم دیا کہ تم دونوں کا امتحان کروں گا۔ چینیوں نے کہا بہت بہتر اپنی جان لڑا دیں گے۔ رومیوں نے بھی عرض کیا کہ ہم بھی اپنا کمال دکھادیں گے۔
الغرض اہلِ چین اور اہل روم میں مقابلہ ٹھہر گیا۔ چینیوں نے رومیوں سے کہا کہ اچھا ایک مکان ہمارے حوالے کرو اور ایک تم لو۔ دو مکان آمنے سامنے تھے۔ ان میں سے ایک چینیوں کو ملا اور دوسرا رومیوں کو۔ چینیوں نے سینکڑوں قسم کے رنگوں کی فرمایش کی۔ باشاہ نے مخزن کا دروازہ کھول دیا۔ ہر صبح چینیوں کو وہاں سے رنگوں کاراتب ملنے لگا۔ رومیوں نے کہا کہ ہم نہ کوئی نقش بنائیں گے اور نہ رنگ لگائیں گے بلکہ اپنا کمال اس طرح دکھائیں گے کہ زنگ باقی نہ رہے۔
چنانچہ انہوں نے دروازہ بند کر کے صیقل کرنی شروع کی اور آسمان کی طرح بالکل سادہ اور شفاف گھوٹا کر ڈالا اور اُدھر چینی اپنے کمال و ہنرمندی سے فارغ ہوکر خوشی کے شا دیا نے بجانے لگے۔ بادشاہ نے آخر چینیوں کا کام دیکھا اور ان کے عجائبات اور نقش و نگار کو دیکھ کے دنگ رہ گیا۔ اس کے بعد رومیوں کی طرف آیا، انہوں نے اپنے کام پر سے پر دہ اٹھایا۔ چینیوں کی تصاویر و تماثیل کا عکس ان گھوٹادی ہوئی دیواروں پر پڑا۔ جو کچھ چینیوں نے نقاشی کی تھی وہ اسی گھوٹا کی ہوئی دیوار پر اس قدر خوبصورت معلوم ہوئی کہ آنکھوں کو حدقۂ چشم سے باہر کھینچ لتیہ تھی۔
اے فرزند! رومیوں کی مثال ان باخدا صوفیوں کی سی ہے جو نہ کتبِ دین پڑھے ہوئے ہیں نہ فضلیتِ علم و ہنر رکھتے ہیں۔ لیکن انہوں نے طمع، حرص، بخل اور کینے وغیرہ کے زنگ سے اپنے سینوں کو مانجھ کر ایسی صیقل کرلی ہے کہ ان کے دل صاف شفاف آئینہ ہوگئے ہیں جس میں ازلی حسن کا جو صورت سے پاک ہے نقش اتر آتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.