Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

ایک صوفی کا اپنا خچر خادمِ خانقاہ کے حوالے کرنا اور خود بے فکر ہوجانا۔ دفتردوم

رومی

ایک صوفی کا اپنا خچر خادمِ خانقاہ کے حوالے کرنا اور خود بے فکر ہوجانا۔ دفتردوم

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ : مرزا نظام شاہ لبیب

    ایک صوفی سیر و سفر کرتا ہوا کسی خانقاہ میں رات کے وقت اتر پڑا۔ سواری کا خچّر تو اس نے اصطبل میں باندھا اور خود خانقاہ کے اندر مقامِ صدر میں جا بیٹھا۔ اہلِ خانقاہ پر وجد و طرب کی کیفیت طاری ہوئی پھر وہ مہمان کے لئے کھانے کا خوان لائے۔ اس وقت صوفی کو اپنا خچّر یاد آیا۔ خادم کو حکم دیا کہ اصبطل میں جا اور خچّر کے واسطے گھاس اور جَو مہیّا کر۔ خادم نے کہا لاحول ولا۔ آپ کے فرمانے کی ضرورت کیا ہے۔ میں ہمیشہ سے یہی کام کیا کرتا ہوں۔ صوفی نے کہا کہ جَو کو ذرا پانی کا چھینٹا دے کر بھگو دینا کیوں کہ وہ خچّر بڈھا ہوگیا ہے اور دانت اس کے کمزور ہوگئے ہیں۔ خادم نے کہا، لاحول ولا، اجی حضرت ! آپ مجھے کیا سکھاتے ہیں۔ لوگ ایسی ایسی تدبیریں تو مجھ سے سیکھ کر جاتے ہیں۔ صوفی نے کہا کہ پہلے اس کا پالان اتارنا اور پھر اس کی پیٹھ کے زخم پر منسل کا مرہم لگا دینا۔ خادم نے کہا لا حول ولاآپ اپنی حکمت تہہ کر کے رکھیئے۔ میں ایسے سب کام جانتا ہوں۔ سارے مہمان ہماری، خانقاہ سے راضی خوشی جاتے ہیں کیونکہ مہمانوں کو ہم اپنی جان اور عزیزوں کے برابر سمجھتے ہیں۔

    صوفی نے کہا کہ اس کو پانی پلانا مگر ذرا گنگنا کر کے دینا۔ خادم نے کہا، لاحول ولا، حضرت آپ کی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے بتانے سے تو میں شرمانے لگا۔ پھر صوفی نے کہا کہ بھائی جَو میں ذرا سی گھاس بھی ملا دینا۔ خادم نے کہا کہ لاحول ولا۔ آپ چپ ہو جائیے سب کچھ ہوجائے گا۔ صوفی نے کہا کہ اس کے تھان کے کنکر پتھر اور کوڑا کرکٹ جھاڑ دینا اور اگر وہاں سبیل ہو تو خشک گھاس بچھا دینا۔ خادم نے کہا لاحول ولا۔ اے بزرگ لاحول ولا پڑھ، بھلا ایک قابل کار پردازے سے ایسے اجّے کے بجّے کرنے سے کیا فائدہ۔

    صوفی نے کہا میاں! ذرا کھریرا بھی پھیر دینا اور جاڑے کی راتیں ہیں ذرا خچر کی پیٹھ پر جھول ڈال دینا۔ خادم نے کہا لاحول ولا، اے پدرِ بزرگوار! آپ اس قدر اہتمام نہ فرمائیے۔ میرا کام دودھ کی مانند پاکیزہ اور شک وشبہ سے پاک ہوتا ہے۔آپ اس میں میگنیوں (یعنی شک وشبہ) کی تلاش نہ کریں۔ میں اپنے فن میں آپ سے زیادہ مشاق ہوگیا ہوں کیونکہ ہمیشہ نیک دید مہمانوں سے کام پڑتا رہتا ہے۔ ہر مہمان کے لائق خدمت کرتاہوں۔

    خادم نے اتنا کہہ کر کمر باندھی اور کہا، لو ! میں چلا، سب سے پہلے گھاس اور جَو کا بندوبست کروں۔ وہ تو چلا گیا ادھر صوفی پر خوابِ خرگوش ایسا طاری ہوا کہ اس کو پھر اصطبل یاد ہی نہ آیا۔ خادم اپنے بدمعاش یاروں میں جاکر صوفی کی فرمایشوں کی ہنسی اڑانے لگا۔ صوفی راستے کا تھکا ہارا لیٹ گیا اور نیم خواب حالت ہی میں خواب دیکھنے لگا۔

    ایک خواب اس نے یہ دیکھا کہ اس کے خچّر کو ایک بھیڑیا دبوچ کر اس کی پیٹھ اور ران کے گوشت کے لوتھڑے نوچ کر کھا رہا ہے (آنکھ کھل گئی اپنے جی میں کہا) لاحول ولا، یہ کیا مالیخولیا ہے۔ بھلا وہ مہربان خادم کہاں گیا ہوگا (وہ تو اس کے پاس ہی ہوگا) پھر خواب دیکھا کہ وہ خچّر راستہ چلتے چلتے کبھی کنویں میں گر پڑتا ہے اور کبھی گڑھے میں۔ اسی طرح کے خوف زدہ واقعات خواب میں دیکھ کر بار بار چونک پڑتا اور کبھی سورۂ فاتحہ اور کبھی سورۂ القارعہ پڑھ لیتا تھا۔ آخر بے تاب ہوکر کہا کہ اب کیا چارہ ہے۔ سب اہلِ خانقاہ سوتے ہیں اور خادم دروازے بند کر کے چلے گئے۔ صوفی تو ان وسوسوں میں گرفتار تھا اور خچّر پر وہ مصیبت پڑی کہ دشمنوں ہی پر ڈالے۔ اس خچّر بے چارے کا پالان وہاں کی خاک اور پتھّروں میں گھّسے کھاکر ٹیڑھا ہوگیا اور باگ ڈور ٹوٹ گئی۔ دن بھر کا تھکا ہارا، رات بھر کا بھوکا پیاسا کبھی نزع کے عالم میں کبھی موت کے عالم میں بسر کرتا رہا۔ زبانِ حال سے کہتا تھا کہ ’’اے بزرگانِ دین ! رحم کرو۔ میں ایسے کچے اور بے شعور صوفی سے بیزار ہوگیا‘‘۔

    الغرض اس خچر نے رات بھر جو تکلیف و اذیت جھیلی ایسی تھی جیسی کہ خاکی پرندے پر پانی میں پڑتی ہے۔ بس وہ ایک ہی کروٹ صبح تک بھوک سے بے تاب پڑا رہا۔ گھاس اور جو کے فراق میں ہنہناتے ہنہناتے سویرا ہوگیا۔ جب اجالا پھیل گیا تو خادم آیااور جھٹ پٹ پالان کو سر کا کراس کی پیٹھ پر رکھا اور سنگ دل گدہے بیچنے والوں کی طرح دو تین زخم لگائے۔ خچّر کیل کے کے چبھنے سے طرارے بھرنے لگا۔ غریب کی زبان کہاں جو اپنا حال بیان کرتا۔ جب صوفی سوار ہوکر آگے روانہ ہوا تو خچّر مارے کمزوری کے گرنے لگا۔ جہاں کہیں گرتا تھا لوگ اسے اٹھادیتے تھے اور جانتے تھے کہ خچّر بیمار ہے۔ کوئی خچّر کے کان مروڑتا اور منہ کھول کر دیکھتا کوئی دیکھتا کہ کہیں سم اور نعل کے بیچ میں کنکر تو نہیں آگیا اور اس کی آنکھیں چیر کر ڈھیلے کار نگ دیکھتا اور سب یہ کہتے کہ اے شیخ ! خچّر تمہارا بار بار گرا پڑتا ہے۔ اس کا کیاسبب ہے، شیخ جواب دیتا کہ خدا کا شکر ہے کہ خچر تو قوی ہے مگر وہ خچر جس نے رات بھر لاحول کھائی سوا اس طریقے کے راستہ طے نہیں کرسکتا اور یہ حرکت واجبی معلوم ہوتی ہے۔ جب خچّر کی غذا لاحول بھی تھی تو رات بھر اس نے تسبیح کی اب دن بھر سجدے کرے گا۔

    جب کسی کو تمہاری حاجات سے دل سوزی نہیں ہے تو اپنا کام آپ ہی کرنا چاہئے۔ اکثر لوگ مردم خوار ہیں ان کی سلام علیک سے فلاح کی امید نہ رکھ جو شخص شیطان کے آفتوں سے لاحول کھاتاہے وہ خچّر کی طرح عین معرکۂ جنگ میں سر کے بل گرتا ہے۔ شیر کی طرح اپنا شکار آپ کر اور کسی اپنے بیگانے کے دھوکے میں نہ آ۔ نااہلوں کی خدمت گزاری ایسی ہی ہوتی ہے جیسی اس خادم نے کی۔ ایسے نااہلوں کے فریب میں آنے سے بے نوکر رہنا بہتر ہے۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 52)
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے