ایک پیاسے کا دیوار کی اینٹ توڑ کر ندی میں پھینکنا۔ دفتردوم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
ایک ندی کے کنارے بلند دیوار تھی اس پر ایک پیاسا بیٹھا، اور پیاسا بھی مرض استسقا (تونس) کا بیمار، برے حال برے احوال، پانی پر دموں دیوانہ، نہایت پریشان اور بے اوسان، وہ دیوار پانی تک پہنچنے میں حائل تھی اور وہ مارے پیاس کے برقرار تھا۔ اس نے دیوار کی ایک اینٹ اکھاڑ کر پانی میں جو پھینکی تو پانی کی آواز کان میں آئی وہ آواز بھی اسے ایسی میٹھی اور سریلی لگی جیسے معشوق کی آواز ہوتی ہے۔
اسی ایک آواز نے شراب کی سی مستی پیدا کردی۔ اس مصیبت زدہ کو پانی کی آواز میں اس قدر مزا آیا کہ دیوار سے اینٹیں اکھیڑا کھیڑ پانی میں پھینکنے لگا۔ پانی تو زبانِ حال سے یہ کہہ رہاتھا کہ اے بھلے مانس! بھلا مجھے اینٹیں مارنے سے تجھے کیا فائدہ؟ پیاسا بھی زبانِ حال سے اس کا جواب دے رہاتھا کہ میرے اس میں دو فائدے ہیں۔ اس لئے میں اس کام سے ہر گز ہاتھ نہ روکوں گا۔
پہلا فائدہ تو پانی کی آواز کا سننا ہے کہ پیاسوں کے لئے رباب کی آواز سے زیادہ ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جتنی اینٹیں میں اس کی اکھیڑتا جاتا ہوں اتناہی صاف شفاف پانی کے قریب ہوتا جاتا ہوں کیونکہ اس اونچی دیوار سے جس قدر اینٹیں اکھڑتی جائیں گی اسی قدر دیوار نیچی ہوتی چلی جائے گی۔ لہٰذا دیوار کی پستی موجبِ قرب اور اس کے فصل ہی سے وصل کی تدبیر ہوتی ہے۔
سجدہ کیا ہے۔ اینٹوں کی چنائی کا اکھیڑنا ہے جو یہ دلیل آیۂ کریمہ ‘‘واسجد واقترب‘‘ سو جب قربت ہے جب تک اس دیوار کی گردن بلند ہے ۔سر کو جھکانے نہیں دیتی۔ لہٰذا تا وقتیکہ تو اس تنِ خاکی سے نجات نہ حاصل کرے آبِ حیات (یعنی زندگی دوام) کے آگے سجدہ نہیں کرسکتا۔
اے فرزندو! اس جوانی کو غنیمت جان، سر جھکا اور (اپنی دیوار کے) ڈھیلوں اور اینٹوں کو اکھیڑ قبل اس کے کہ بڑھاپے کے دن آجائیں اور تیری گردن بٹی ہوئی رسّی میں بندھ جائے اور بری عادتوں کی جڑیں ایسی مضبوط ہوجائیں کہ ان کے اکھیڑنے کی طاقت ہی نہ رہے۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 65)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.