ایک یہودی وزیر کا مکر و فریب سے نصرانیوں میں تفرقہ ڈلوانا۔ دفتراول
ایک یہودی بادشاہ بہت ظالم تھا۔ وہ حضرت عیسیٰ کا دشمن اور عیسائیوں کا قاتل تھا۔ اگر چہ وہ زمانۂ عیسیٰ کی تصدیق کرتا تھا مگر وہ موسیٰ کے نام پر دیوانہ تھا۔ اس ناسمجھ بادشاہ نے خدا کی ر اہ میں بھی خدا کے دو پیاروں کو ایک دوسرے سے جدا کردیا تھا۔ وہ اپنی یہودیت کے تعصب میں بھینگا سونچنے لگا تھا۔ اس نے لاکھوں عیسائیوں کو چُن چُن کر اس قدر ظلم سے مارا کہ موسیٰ کا دین بھی تھر تھر کانپنے لگا۔
مارے ڈر کے عیسائیوں نے طے کیا کہ اپنی اپنی جان بچائیں اور اور اپنے دین و مذہب کو فرشتے سے بھی چھپائیں۔ اس بادشاہ کا ایک وزیر رہزنِ دین وایمان تھا۔ اپنے مکر سے پانی پر گرہ لگاتا تھا۔ اس نے عرض کیا کہ اے بادشاہ! تو جو اِن چھپے عیسائیوں کی تلاش میں مصروف ہوگیا ہے، تجھے اس میں کامیابی نہ ہوگی کیونکہ دین کوئی مشک و عود کی خوشبو تو ہے نہیں کہ الگ پہچانی جاسکے۔ اس لیے یہ اصول پوری قوم کو تباہ کرنے کے لئے کچھ مفید نہیں۔ اس قوم کا دین سو غلافوں میں چھپ گیا ہے۔ اب ظاہر میں یہ قوم تیری دوستی وہم مشربی کا دم بھرتی ہے مگر باطن میں بالکل مخالف ہے۔ بادشاہ نے پوچھا کہ پھر تم ہی بتاؤ کہ کیا تدبیر کی جائے کہ دنیا بھر میں نصرانی کا نام ونشان اور خفیہ طور پر بھی دینِ عیسوی کہیں باقی نہ رہے۔ اس نے کہا اے بادشاہ! میرے کان اور دونوں ہاتھ کٹوادے اور ناک اور ہونٹوں کوچِروا کے مجھے سولی پر لٹکا نے کی سزا تجویز کر۔ جب مجھے سولی کے نیچے لایا جائے تو ایک شخص کو مقرر کر کہ وہ تیرے حضور حاضر ہوکر رحم کی التجا کرے۔یہ سب کام ایسی عام جگہ ہونا چاہئے جہاں چوراہا ہو تاکہ خبر ہر طرف بہت جلد پھیل جائے۔ جب تو مجھے جان کی امان دے دے تو دیس سےنکال کر کے شہر سے دور کسی جنگل میں پھنکوا دے تاکہ پھر میں ان نصرانیوں میں فساد ڈلوا دوں۔ وہ اس طرح کہ میں پکار پکار کر کہوں گا کہ
’’اے دلوں کا بھید جاننے والے خدا تو واقف ہے کہ میں عیسائی زادہ ہوں،ظالم بادشاہ کو خبر ہوگئی اور وہ از راہِ تعصّب میری جان کے پیچھے پڑ گیا۔ میں نے ہر چند چاہا کہ اپنا دین پوشیدہ رکھوں اور اپنے کو یہودی ظاہر کروں، لیکن بادشاہ میرے بھید کی خوشبو پاگیا۔ اگر عیسیٰ مسیح کی روح میری پشت وپناہ نہ ہوتی تو وہ یہودیت کے نشے میں میرے پُرزے پرزے کردیتا۔ عیسیٰ کے واسطے میری جان ہلاک ہو یا سر اڑ جائے تو کچھ پروا نہیں بلکہ ہزارہا احسان مانوں کہ میری محنت ٹھکانے لگی۔ لیکن چوں کہ میں دینِ عیسوی اور علمِ انا جیل میں کامل ہوں اس لئے یہ اندیشہ ضرور ہے کہ کہیں یہ دینِ پاک جاہلوں کے ہاتھ پڑ کر غارت نہ ہوجائے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس دینِ برحق کا رہنما بنایا اور اس کی ذات سے امید ہے کہ وہ نصرانی قوم کو ہماری رہنمائی میں ہدیات عطا فرمائے گا ‘‘۔
پھر جب نصرانی قوم دین میں میری ہدایتوں پر عمل کرنے لگے گی تو میں ان کے درمیان ایسے ایسے فتنے اور فساد پھیلاؤں گا کہ میری چالاکی پر شیطان بھی حیران رہ جائے گا۔ ایسے ایسے حیلوں سے ان کو فریب دوں گا اور اس قدر افرا تفری ڈالوں گا کہ آخر کار وہ آپس ہی میں خوں ریزیاں کر کے سب کے سب ختم ہوجائیں گے۔ جب وزیر نے مکاری کی تدبیریں الف سے یا تک سنا دیں تو بادشاہ خاطر جمع ہوگیا۔ اس کو بھرے مجمع میں بے عزّت کیا تاکہ تمام رعایا اس کے حال سے واقف ہو جائے اور پھر نصرانیوں کی آبادی کی طرف پھینکوا دیا کہ ان کو دعوت دے کر مکر کے جال میں پھنسائے۔
عیسائیوں نے اس کو ان برے حالوں میں دیکھاتو اس کے درد ومصیبت پر زار زار رونے لگے اور اس طرح رفتہ رفتہ ہزار ہا عیسائی اس کے پاس جمع ہوگئے۔ وہ ان پر انجیل اور عقائد و عبادات کے باطنی حقائق کھولنے لگا اور حضرت مسیحؑ کے اقوال و افعال کا وعظ کرتا تھا مگر باطن میں یہ وہ سیٹی تھی جو جال کے پیچھے چھپ کر پرندوں کوبلانے اور پکڑنے کے لئے بجائی جاتی ہے۔
الغرض عوام الناس کی تقلید تو اندھی ہوتی ہی ہے۔ سب عیسائی قوم اس پر فریفتہ ہوگئی۔ دلوں میں اس کی محبت جڑ پکڑ گئی اور اس کو عیسیٰؑ کا نائب سمجھنے لگے۔ وہ کافر وزیر عیسائیوں کا دینی پیشوا بن گیا اور حلوے میں لہسن کا پُٹ دینے لگا۔ جو لوگ اہلِ ذوق تھے وہ اس کی تقریر کی لذّت میں ایک طرح کی کڑواہٹ بھی پاتے تھے کیوں کہ وہ بعض مطالب اس طرح چھپا کر بیان کرتا تھا جیسے گل قند میں زہر ملا ہوا ہو۔ ایسی نیک بات کے دھوکے میں نہ آنا چاہئے جس کی تہہ میں سو برائیاں چھپی ہوئی ہوں۔ جو لوگ صاحبِ علم وذوق نہ تھے انہوں نے اس کی تقریروں کو گلے کا ہار بنالیاتھا۔ یہاں تک کہ چھ برس تک بادشاہ سے الگ رہ کر وہ تمام عیسائیوں کا پیشو ابن گیا۔ اصلاحِ دین و دنیا کی تمام ذمہ داری مخلوق نے اسی پر ڈال دی اور اس کی ہاں نہ پر جان دینے لگی۔ باوجود اس کے بادشاہ سے پیام سلام جاری تھے۔ اور بادشاہ اس کی کارروائیوں سے بالک مطمئن تھا۔
آخر کار اپنی دلی مراد کے لئے بادشاہ نے خط لکھا کہ اے محسنِ یہود! اب تیرے کام کا وقت آن پہنچا، بہت جلد میرے دل کی کھٹک دورکر، میں تن من سے تیری نادر تدبیر کے چلن کا انتظار کر رہا ہوں لہٰذا جلد ان عیسائیوں کی الجھن سے مجھے نجات دے۔ وزیر نے جواب دیا کہ اے بادشاہ میں توڑ جوڑ میں ہوں کہ دینِ عیسوی میں فتنہ بپا ہوجائے۔ اس نصرانی قوم میں بارہ امیر بڑے زبردست تھے جو اپنے قبیلوں پر حکومت کرتے تھے اور کوئی آدمی اپنے امیر قبیلہ کے حکم سے سر تابی نہ کرتا تھا اور یہ بارہ کے بارہ امیر اس مکار وزیر کے غلام ہوگئے تھے۔ سب کے سب اس کے قول کی تصدیق کرتے اور ا س کے اعمال و افعال کی پیروی کرتے تھے اور اس کے اشارے پر جان دینے کے لئے تیار تھے۔
اب اس یہودی بچے نے چالاکی یہ کی کہ ہر امیر کے نام ایک ایک وصیت نامہ اس اہتمام سے لکھا کہ ہر ایک میں طریقِ عبادات اور دین کے معارف ایک دوسرے سے مختلف بلکہ بالکل متضاد تھے۔ کسی میں ریاضت کرنے اور بھوکے رہنے کی ہدایت تھی اور توبہ و انابت کی شرط تھی تو کسی میں لکھا تھا کہ ریاضت بے کار ہے، اس راہ میں جود وسخا کے بغیر نجات نہیں۔ کسی میں لکھا تھا کہ تیری بھوک پیاس اور تیری سخاوت یہ سب شرک ہے، سوائے توکل و تسلیم کے باقی سب مکر کے پھندے ہیں۔ کسی میں لکھا کہ آدمی پر خدمتِ خلق واجب ہے اور توکّل کا خیال محض فریب ہے کسی میں لکھا کہ یہ جو دین میں امرونہی کے احکام ہیں یہ اس لئےنہیں کہ ان پر عمل کیا جائے بلکہ اس لئے کہ ہمارا یہ عجز ہم پر ثابت ہوکہ ہم ان کی پوری پوری تعمیل نہیں کرسکتے اور اس طرح ہم پر خدا کی قدرت اور ہیبت طاری ہو۔ کسی میں لکھا کہ اپنا عجز مت دیکھ، اپنا عجز دیکھا تو خدا کی دی ہوئی نعمت سے انکار کرنا ہے بلکہ اپنی قدرت و اختیار کو اسی کی دی ہوئی نعمت اور عینِ حق سمجھ۔ کسی میں لکھا کہ قدرت و نعمت ان دونوں پر توجہ نہ کر سوا خدا کے جو کچھ آدمی کے پیشِ نظر ہو وہ بُت ہے۔ کسی میں لکھا کہ یہ عجز اور قدرت اور جہاں تک تیرا فکر پہنچے ان سب سے نظر پھیر لے کیونکہ ہر دین والے اپنے اپنے نفس کی رہنمائی میں چل کر ٹھوکریں کھاتے رہے۔ کسی میں لکھا کہ یہ غوروفکر جو مشاہدۂ حق کے لئے تو کرتا ہے یہ شمعِ راہ ہے اس کو کبھی بجھنے نہ دے، اگر تو مراقبے ومشاہدے ترک کردے گا تو تیری شمعِ وصال آدھی رات کو تیرے ہی ہاتھوں گل ہوجائے گی۔ کسی میں لکھا تھا کہ اس مراقبے و مشاہدے کی شمع کو بجھادے۔ کوئی خوف نہ کر تاکہ آخرت میں ایک کا بدلہ ایک لاکھ پائے۔ کسی میں لکھا کہ جو کچھ خدا نے تجھے عطا کیا اور تجھ پر اسے آسان کردیااس کو خوشی خوشی لے اور اپنے آپ کو امتحان میں مت ڈال ۔کسی میں لکھا کہ یہ سارا عالم ایک ہی ہے جو شخص خدا اور بندے کو الگ الگ دیکھتا ہے وہ بھینگا ہے۔ کسی میں لکھا کہ یہ کثرت ایک کیوں کر ہوسکتی ہے ایسا گمان کرنے والا سوا مجنون کے اور کون ہوسکتا ہے۔
غرض اس قسم کے ایک دوسرے کی ضد بارہ وصیت نامے اس دینِ عیسوی کے دشمن نے لکھے۔ اس نے عیسیٰ کی یک رنگی کی بو بھی نہ سونگھی تھی مگر اس تیاری کے بعد اب انتہائی مکر یہ کھیلا کہ وعظ و نصیحت ترک کر کے تنہائی میں جا بیٹھا۔ چالیس پچاس دن تک جو چلہ کیا تو مریدوں میں عام اضطراب پھیل گیا۔ تمام مخلوق اس کے حال، قال، ذوقِ عرفان اور اس کے دیدار کے شوق میں دیوانی ہوگئی۔ بہت منت سماجت کی، روئے پیٹے مگر وہ ریاضت سے باز نہ آیا اور اندر ہی اندر سے جواب دیا کہ میری جان اپنے چاہنے والوں سےدور تو نہیں لیکن باہر آنے کا دستور نہیں۔ تمام امیر مخلوق کی سفارش کے لئے جمع ہوئے اور مریدوں نے آہ و زاری شروع کی۔ وزیر نے جواب دیا کہ اے سخن پرست مسخرو! صرف زبان سے کان تک وعظ وپند کو قبول کرنے والو! ان ظاہری کانوں میں روئی کی ڈاٹیں ٹھونسو اور آنکھوں پر سے ظاہر کے ٹانکے توڑو، یہ ظاہری کان باطنی کانوں کی ڈاٹیں ہیں۔ جب تک ظاہری کان بہرے نہ ہوں باطنی کان نہیں کھلتے۔
لہٰذا بالکل بے حس، بے گوش اور بے سمجھ ہوجاؤ تاکہ خدا سے خطاب ارجعی سن سکو۔اگر مجھے مانتے ہو تو میں اپناآخری پیام تم تک پہنچادوں گا۔ لیکن اگر میرے کمال میں کچھ بھی شبہ ہے تو خود کیوں زحمت اٹھاتے ہو اور مجھے کیوں تکلیف پہنچاتے ہو۔ میں اس تنہائی سے ہر گز باہر نہ نکلوں گا کیوں کہ مراقبے ومشاہدے میں مشغول ہوں۔سب نے عرض کیا کہ اے وزیر ہم کو تیرے حکم سے کوئی انکار نہیں ہے اور ہمارا کہنا غیرت کے ساتھ نہیں بلکہ ہماری حالت یہ ہے کہ تیرے فراق میں آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور روح کی گہرائیوں سے آہ کے دھنویں بلند ہورہے ہیں۔ بچہ اپنی ماں یا ان کی گود میں برائی بھلائی جانے بغیر بھی روتا ہے۔ اس کا رونا شکوہ شکایت کی بنا پر نہیں ہوتا۔ وزیر نے اندر ہی اندر سے پکار کر کہا کہ اے میرے مریدو! تم کو معلوم ہو کہ مجھ کو عیسیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ اپنے سب مریدوں اور بہی خواہوں سے الگ ہو جاؤں۔ دیوار کی طرف رخ کر کے تنہا بیٹھوں اور اپنے وجود سے بھی جدائی اختیار کروں۔ بس اس سے زیادہ کہنے کی اجازت نہیں اور مجھے گفتگو سے کام بھی نہیں۔ اے دوستو! خدا حافظ میں مرچکا ہوں اور چوتھے آسمان پر پہنچ چکا ہوں تاکہ آسمانِ آتشیں کے نیچے سوکھی لکڑی کی طرح نہ سلگوں۔ بس اب میرا منشا یہ ہے کہ حضرت کے پاس چوتھے آسمان پر حاضرر ہوں۔
اس کے بعد ہر امیر کو الگ الگ بلا کر تنہائی میں بات چیت کی اور ہر ایک سے یہی کہا کہ دینِ عیسوی کا سچا پیرو اور میرا خلیفہ توہی ہے باقی سب امیر تیرے پیرو رہیں گے۔ عیسیٰ کا حکم یہی ہے لہٰذا جو امیر تجھ سے سرتابی کرے اس کو گرفتار کر کے مار ڈال یا قید کر دے لیکن جب تک میں مر نہ جاؤ ں یہ را زکسی پر ظاہر نہ کر۔ اسی طرح ہر امیر کو الگ الگ اس نے وصیت کی کہ دینِ خدا میں میرا نائب تیرے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے اور ہر ایک سے رازداری کا وعدہ لیا اور خلافت دے کر ایک ایک وصیت نامہ دیا ۔یہ سب وصیت نامے حروف تہجی کی طرح ایک دوسرے سے مختلف اور آپس میں متضاد تھے۔
اس کام سے فارغ ہوکر دوسرے دن سے دروازہ بند کر کے پھر چلّے میں بیٹھ گیا اور اسی مدت میں اپنے کوہلاک کر لیا۔ جب مخلوق اس کی موت سے آگاہ ہوئی تو اس کی قبر پر قیامت برپا ہوگئی۔ اس کے دردِ فراق میں کیا امیر کیا غیر سب بےقرار ہوکر ماتم کرتےرہے۔ آخر ایک ماہ کے بعد سب مرید جمع ہوئے اور امیروں کی طرف مخاطب ہوکر پوچھا کہ اس کی گدّی پر بیٹھنے کا اہل کون ہے تاکہ ہم اس کو اپنا پیشوا بنائیں اور اس کی شفاعت و امداد کا دامن تھامیں۔
اب ایک امیر قوم کے سامنے آیا اور دعویٰ کیا کہ میں اس وزیر اور عیسیٰ کا نائب ہوں۔ دیکھو! یہ وصیت نامہ میرے دعوے کا شاہد ہے کہ یہ نیابت میرا ہی حق ہے۔ اس کے بعد دوسرا امیر مقابلے پر آیا اور اس نے بھی بغل سے ایک وصیت نامہ نکالا اور خلافت کا دعویٰ کیا۔ یہاں تک کہ دونوں میں غصہ اور ضد پیدا ہوگئی اور اسی طرح بارہ کے بارہ امیروں نے اپنی اپنی ٹکڑیاں الگ کر کے تلواریں سونت لیں۔ ہر امیر ایک ہاتھ میں تیغ اور دوسرے ہاتھ میں وصیت نامہ لئے میدانِ جنگ میں اترا اور مست ہاتھی کی طرح ایک دوسرے کے مقابل ہوگیا۔ ہر قبیلے نے اپنے اپنے امیر کا ساتھ دیا اور ان میں سخت جنگ ٹھن گئی۔ لاکھوں نصرانی اس جنگ میں ہلاک ہوئے یہاں تک کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر آفت یہ آئی کہ ان کے عقیدوں میں ہمیشہ کے لیے سخت اختلاف پیدا ہوگیا۔ وہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے اور اس نا اتفاقی نے انہیں پھر کبھی ملنے نہ دیا۔ ان کے دین کی کوئی وقعت اور قوت باقی نہ رہی۔ صرف وہ گروہ جس نے خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنی گوئی کو سمجھا اور مبارک نام احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی، اس نام کی پناہ میں آگیا ورنہ دینِ عیسوی کے سب احکام خبط اور عقائد ایک معمّا بن کے رہ گئے اور خرد مندوں کی نظر سے گر گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.